نجی اسکولوں کے اساتذہ کے سروں پر لٹکتی تلوار
11 ستمبر 2020اصل میں آٹھ ستمبر کو سوشل میڈیا پر کچھ دوستوں نے شعبہء تدریس سے تعلق کی وجہ سے کچھ لائیو سیشنز کے لیے مدعو کیا۔ پاکستان میں خواندگی سے متعلق مسائل اور تحفظات پر بات کرنے کو کہا گیا تو میں نے یہ ذمے داری اپنے ان دوستوں کے سر ڈالنے کی کوشش کی، جو شعبہ تعلیم ہی سے وابستہ ہیں۔
اس سلسلے میں پہلا میسج اس سکول کے واٹس ایپ گروپ میں کیا، جہاں سب سے پہلے کوآرڈینیٹر کی ذمے داریاں نبھا چکی تھی۔ میسج کے جواب سے پتا چلا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے آغاز میں ہی ادارے نے سبجیکٹ کوآرڈینیٹرز کے علاوہ تمام اساتذہ کو نوکریوں سے نکال دیا ہے کہ آن لائن کلاسز میں ایک ہی استاد کی ریکارڈ کی ہوئی ویڈیو تمام سیکشنز میں بیک وقت چلائی جا سکتی ہے۔
اب نوکریوں سے فارغ ہونے والے استاتذہ میں سے چند ایک اپنے آن لائن کچن، فروزن فوڈ، بوتیک اور دیگر مزدوریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے بھی کئی ادارے ہیں، جو گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے اساتذہ کو نوکری سے نکال دیتے ہیں کہ چھٹیوں کی تنخواہ نہ دینی پڑے اور چھٹیوں کے بعد نئی بھرتیاں کر کے گزشتہ سٹاف کی تین مہینوں کی تنخواہوں کو ہڑپ کر لیتے ہیں۔
یہاں سے نا امید ہوکر اپنی بیٹی کی ٹیچر سے رابطہ کیا کہ شاید وہ اس موضوع پر کوئی سیر حاصل گفتگو کر سکے لیکن وہاں سے بھی یہ افسوس ناک خبر ملی کہ مسلسل آن لائن کلاسز لے رہے ہیں، کلاسز میں طلبہ کی حاضری بھی تسلی بخش ہے لیکن گزشتہ تین ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں۔ جب اسٹاف کی طرف سے مطالبہ کیا گیا تو ایک ہنگامی میٹنگ بلا کر پہلے اساتذہ کے موبائل باہر رکھوائے گئے اور پھر انہیں مطلع کیا گیا کہ فی الوقت ادارہ بھی معاشی بحران کی زد میں ہے اور تنخواہوں کی ادائیگی ناممکن ہے۔
اگر اپنی نوکری کی ضمانت چاہتے ہیں تو دوبارہ ایسا مطالبہ نہ کریں، ہمارے پاس نوکری کے امیدواروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک اینٹ اٹھائیں تو دس ٹیچر آپ سے کم تنخواہ میں مل سکتے ہیں۔ اس لیے اس مشکل کی گھڑی میں تنخواہوں کا مطالبہ نہ کر کے ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ دوسری طرف اس ادارے کے بانی وزارت تعلیم سے اساتذہ کی تنخواہوں کی مد میں اچھا خاصہ قرض بھی لے چکے ہیں لیکن وہ قرض اسلام آباد میں ہنگامی بنیادوں پر ایک نئی برانچ بنانے کے کام آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ہمارے بچے فقط ’نوکر بننے‘ کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں
’یکساں نصاب ایک سہانا خواب اور انتخابی نعرے کے سوا کچھ نہیں‘
اس طرف سے بھی ناکام و نامراد ہو کر ایک مشہور ادارے کے کچھ اساتذہ سے مدد طلب کی، پتا چلا کہ ورچول ٹیچنگ کی وجہ سے، جہاں کام دگنا ہوگیا ہے، وہیں پر معاشی بحران کے نام پر اساتذہ کی تنخواہوں میں دس سے ستر فیصد (بمطابق مضمون) سیلری کٹ لگ رہا ہے۔
عارضی اسٹاف کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ اپنے گرد و پیش میں موجود نجی اسکولوں کے زیادہ تر اساتذہ کو معاشی بحران کی اسی چکی میں پستے ہوئے دیکھا ہے۔ کوئی دوست فون کر کے کہہ رہا ہے گاڑی بیچنی ہے کہ تنخواہیں نہیں مل رہیں،گزر بسر مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، تنخواہیں مانگیں تو ادارہ صاف نوکری کی دھمکی دیتا ہے۔
وزیر تعلیم نے لاک ڈاؤن کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ نہ اساتذہ کو نوکریوں سے نکالا جائے گا۔ نہ ہی ان کی تنخواہوں میں کسی قسم کی کٹوتی ہو گی لیکن اعلان کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ حکومت اور وزارت تعلیم کی ناک کے نیچے نجی سیکٹر میں جس طرح اساتذہ کا معاشی استحصال ہو رہا ہے، وہ شدید لمحہ فکریہ ہے۔
استاد آپ کے تعلیمی نظام کی بنیاد ہیں اور اس مسلسل ذہنی تناؤ اور معاشی غیر یقینی صورتحال کے باعث یہ بنیاد اس پہلے سے بوسیدہ نظام کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔