1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نجی زندگی اور ’دنیا کیا کہے گی؟‘ کا خوف

12 جنوری 2021

ہمارے جیسے روایتی سماج میں زندگی اپنی شرائط پر بسر کرنا واقعی حوصلے کا کام ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ شخصی آزادی کیا ہے، انسان کے ذاتی معاملات کون سے ہیں اور کہاں پر مداخلت بالکل ہی نہیں کرنی؟

https://p.dw.com/p/3noUV
 DW Urdu Bloggerin Sana Batool
تصویر: DW

ہمیں ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں انسان کو خاندان، روایات، سماجی اقدار کے ساتھ ایسے جوڑا جاتا ہے کہ یہ بات ہی بھلا دی جاتی ہے کہ اس کی اپنی ذات بھی ہے۔ فرد سماج کی بھیڑ میں کہیں کھو جاتا ہے اور اس نقصان کا احساس خود کھونے والے کو بھی نہیں ہوتا۔

سماجی دباؤ ایک نادیدہ طاقت ہے، جو ہمیں مجبور کر دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کا ہر فیصلہ معاشرے کی طے کردہ توقعات کے مطابق کریں۔ جو فرد ایسا نہ کرے اس کے لیے زندگی کٹھن نہیں تو کم از کم اتنی مشکل ضرور کر دی جاتی ہے کہ وہ آسانی سے سماج میں موو نہیں کر سکتا۔

ابتدائی عمر سے ہی تعلیم کا چناؤ، سکول کا انتخاب اور مضامین کی سلیکشن تک والدین اور معاشرے کے دباؤ کو سامنے رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلبا میں نوے فیصد زور زبردستی سے سائنس کے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں اور جب تک انٹری ٹیسٹ میں بری طرح ناکام نہیں ہو جاتے، ان کی جان نہیں چھوٹتی۔

 لیکن یہ بارہ سالا ذہنی اور سماجی دباؤ نوجوانوں کی شخصیت میں کنفیوژن کا ایسا خلا پیدا کرتا ہے، جو ساری زندگی ساتھ رہتا ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، یا سیف پروفیشن کا چناؤ ایسا پریشیر ہے، جو بہت سے فنکارانہ صلاحیت اور تخلیقی ذہن رکھنے والے بچوں کو عجیب مخمصے میں ڈال دیتا ہے۔ ان کی اصل صلاحیتیں کہیں کھو جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کے فقدان کے اسباب

یہی حال ٹیکنیکل مائنڈڈ بچوں کا ہوتا ہے۔ حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے پورا زور اسی بات پہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شعبہ ہو، جس میں محنت کم اور پیسہ زیادہ ہو۔

کریئر یا تعلیم کا انتخاب تو بڑی بات ہے یہاں لباس کا چناؤ، رہن سہن کا انداز، میل جول، کھانا پینا سب کا سب وہی ہونا چاہیے، جو سوسائٹی آپ سے چاہتی ہے۔ سوچ وہی قابل قبول ہے، جو معاشرتی فکر کی عکاس ہو۔ اگر آپ سوال کرتے ہیں، طے کردہ روایات پہ سوال اٹھاتے ہیں تو آپ کو گستاخ اور باغی سمجھا جاتا ہے اور اسی گھٹن کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنی مرضی کا لباس پہن لے، اپنی مرضی سے کھا پی لے، اسے اپنے باغی ہونے کی غلط فہمی ہونے لگتی ہے جبکہ یہ فرد کا ذاتی عمل ہے۔ اس سے کوئی انقلاب آتا ہے نہ ہی مجموعی طرز فکر و زندگی پہ فرق پڑتا ہے۔

ہم میں سے کتنے ایسے ہیں، جو معاشرتی دباؤ کے تحت ان چاہے رشتوں میں بندھے ہیں، چاہے وہ رشتے خون کے ہوں، تعلق کے یا ازدواجی۔ صرف اسی خوف کے پیش نظر کہ دنیا کیا کہے گی، لوگ کیا کہیں گے، ہم اپنی زندگی کے اہم فیصلے بھی اپنی پسند ناپسند کو نظر انداز کرتے ہوئے سماجی معیار پہ پورا اترنے کے لیے کر لیتے ہیں۔

پھر چاہے کیسی ہی ذہنی، جذباتی اور جسمانی اذیت ہو، ان ان چاہے رشتوں کو نبھاتے زندگی گزار دیتے ہیں۔

اس دنیا میں زندگی کو 'مکمل طور پر آزادانہ طریقے‘ سے گزارنا ناممکن ہے لیکن نجی زندگی میں اتنی تو آزادی ہونی چاہئے کہ مرتے ہوئے یہ پچھتاوا نہ ہو کہ کاش جی لیا جاتا۔

یہ زندگی آپ کی، آپ اس کے حق دار ہیں، اس کو گزارنے کا حق بھی آپ کا ہے، تو پھر اسے خوف کے سائے میں کیوں گزارا جائے؟ فیصلہ کوئی بھی ہو، وہ انسان نے خود لیا ہو یا اس نے اس کا اختیار کسی اور کو دیا ہو، اس کے حتمی نتائج کا سامنا انسان کو خود کرنا ہوتا ہے۔

پھر یہ کیوں سوچا جائے کہ جیسے معاشرہ چاہے وہ انداز اپنایا جائے گا تو زندگی آسان ہو جائے گی! زندگی تب آسان ہوتی ہے، جب آپ اسے خوشی سے گزاریں۔ من مرضی کریں، کھل کے جیئں اور دوسروں کو جینے دیں، سماجی دباؤ کو اپنے لیے مصیبت نہ بنائیں۔ اتنا حوصلہ ضرور پیدا کریں کہ نجی زندگی میں دخل اندازی کرنے والوں کو جواب دے سکیں اور بتا سکیں کہ آپ کی زندگی کے وہ ٹھیکے دار نہیں ہیں۔