1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نرگس سمندری طوفان کا ایک برس مکمل ہوگیا

افسر اعوان2 مئی 2009

نرگس نامی سمندری طوفان کو تباہی مچائے ایک سال مکمل ہوگیا ہے لیکن میانمار میں اس طوفان کے متاثرین کی تکالیف نہ صرف ابھی تک جاری ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/HiUp
سمندری طوفان سے متاثرہ افراد ایک برس گزرنے کے باوجود امداد کے طالب ہیںتصویر: picture-alliance / dpa

میانمار کی فوجی حکومت نے سیاسی بنیادوں پر ان متاثرین کی فلاح اور دوبارہ آبادکاری کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے کارکنان کے ملک میں داخلے پر تازہ پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا ہے۔

گزشتہ برس دو مئی کو میانمار سے ٹکرانے والے نرگس نامی سمندری طوفان سے 138،000 سے زائد افراد ہلاک یا لاپتہ ہوگئے تھے۔ لیکن اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود میانمار کی حکومت نے امدادی اداروں کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر نہ صرف بین الاقوامی برادری کی طرف سے میانمار کی فوجی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کی اجازت کے لئے اپیل کرنا پڑی تھی۔ بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطابق اس طوفان سے 25 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے جن میں سے اکثر ابھی تک خوراک اور رہائش کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا شکار ہیں۔

Ein Satellitenfoto des NASA-Satelliten zeigt den Zyklon "Nargis"
گزشتہ برس دو مئی کو میانمار سے ٹکرانے والے نرگس نامی سمندری طوفان سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار سے زائد افراد ہلاک یا لاپتہ ہوگئے تھےتصویر: picture-alliance / dpa

میانمار کے ساحلی علاقے اراواڈی ڈیلٹا میں طوفان کے متاثرین تک امداد پہنچانے میں بین الاقوامی امدادی اداروں کو کس حد تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ رنگون میں اقوام متحدہ کے دفتر اطلاعات کے ترجمان آئے ون Aye Win کے اُس بیان سے ہوتا ہے جو انہوں نے طوفان کے فورا بعد امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے میڈیا کو دیا تھا۔

" اس علاقے تک رسائی بہت ہی مشکل ہے۔ علاقے میں رسل ورسائل کے ذرائع بہت محدود ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں، پل بہہ گئے ہیں۔ امدادی سامان پہنچانے کے لئے ہم صرف ہلکے وزن کی گاڑیاں استعمال کر پا رہے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھ ٹن وزن لے جاسکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے لئے ان علاقوں میں امدادی سامان پہنچانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہے "

Ein entwurzelter Baum in Yangon
بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود مینمار کی فوجی حکومت بیرونی امداد لینے پر راضی نہیںتصویر: picture-alliance / dpa


اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات کے بعد آلودہ پانی سے پھیلنے والی وبائی امراض سے مزید ہلاکتوں کا خدشہ تھا لیکن خوش قسمتی سے کوئی ایسے امراض نہیں پھیلے جس سے بڑے پیمانے پر مزید ہلاکتیں ہوتیں۔ اس طوفان کو ایک سال گزرنے کے باوجود بھی اس علاقے میں لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ متاثرین کی آبادکاری کے لئے دستیاب وسائل ضرورت سے کہیں کم ہیں۔ امدادی سرگرمیوں کے لئے اقوام متحدہ کی اپیل پر دنیا کے مختلف ملکوں کی جانب سے 315 ملین ڈالر کی امداد موصول ہوئی جو کہ کل اپیل کی گئی رقم کا قریب 66 فیصد بنتا ہے۔

آج کل بہت سے ملک سیاسی وجوہات کی بناء پر مزید امداد دینے سے گریزاں ہیں، کیونکہ میانمار کی فوجی حکومت نے جمہوریت کی بحالی کے لئے کوشش کرنے والی اپوزیشن سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو مسلسل نظر بند کررکھا ہے۔ اس طرح کی وجوہات کی بنا پر میانمار کو اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی طرف سے پابندیوں کا سامنا ہے۔