نصراللہ کے ساتھ حزب اللہ کے بیس سے زائد اہم ارکان مارے گئے
29 ستمبر 2024اسرائیلی دفاعی افواج کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بیروت میں شہری عمارتوں کے نیچے حزب اللہ کےزیر زمین ہیڈ کوارٹرز میں حسن نصراللہ کے ہمراہ 20 دیگر 'دہشت گرد‘ بھی موجود تھے، جو اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
اس بیان کے مطابق حسن نصراللہ کے ساتھ مارے جانے والوں میں حزب اللہ کے نمایاں رہنما ابراہیم حسین جازنی اور سمیر توفیق دیب بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے اس حملے میں مارے جانے والوں کی فہرست میں عابد الامیر محمد سبلینی اور علی ناف ایوب بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف ایران نے حسن نصراللہ کی ہلاکت پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی میٹنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بات دہرائی ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی لبنان میں ہنگامی کارروائیاں
دریں اثنا ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ لبنان میں خوراک کی فراہمی کی خاطر ہنگامی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین تازہ کشیدگی کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ سال کے آخر تک امدادی کارروائیاں چلانے کی خاطر کم از کم ایک سو پانچ ملین ڈالر کی امداد کا انتظام کیا جائے۔
دوسری طرف لبنان کی وزارت صحت نے آج اتوار کے روز بتایا ہے کہ لبنان کے مشرقی اور جنوبی علاقوں اور بیروت میں گزشتہ دو روز سے جاری اسرائیلی بمباری میں طبی عملے کے کم از کم 14 ارکان بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
لبنانی سرکاری میڈیا کے مطابق وادی البقاع میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر کیے گئے تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں عام شہری بھی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایک ایسے ہی حملے میں ایک ہی کنبے کے 17 افراد ہلاک ہوئے۔
لبنان میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شام کا رخ کرنے لگی ہے۔ 23 ستمبر سے اب تک کم از کم 36 ہزار شامی جبکہ 41 ہزار سے زائد لبنانی سرحد پار کر کے شام کے علاقے میں داخل ہوئے ہیں۔
لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی این این اے کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار لبنان کے وزیر ناصر یاسین نے ایک رپورٹ میں دیے ہیں۔
بیروت حکام کے مطابق اس تازہ بدامنی کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سولہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
ع ب/ا ب ا، ع ا (ڈی پی ے، روئٹرز، اے ایف پی)