نصف صدی بعد سلووینیہ کے مسلمانوں کی سن لی گئی
4 فروری 2020سلووینیہ کے مسلمانوں نے پچاس برس قبل اس مسجد کے قیام کی درخواست کی تھی۔ اس کی تعمیر میں مختلف القسم کی رکاوٹیں مسلسل پیدا کی جاتی رہیں۔ تعمیر کے لیے خلیجی ریاست قطر نے کثیر سرمایہ فراہم کیا۔ دائیں بازو کے حلقے اور دوسری سماجی تنظیمیں اس سرمائے کی فراہمی کی بھی مخالفت کرتی رہی تھیں۔ مسجد کے مخالفین کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے اس کا تعمیراتی عمل رکتا رہا۔
مسجد کے قیام کی مخالفت کی طرح اس کی تعمیر کو بھی روکنے کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا۔ سن 2016 میں ایک مرتبہ سؤر کا سر بھی مسجد کے احاطہ رکھا گیا اور بعض اوقات اسی جانور کے خون کا چھڑکاؤ بھی مسجد کے اندر کیا گیا۔
اس مسجد کے فعال ہونے پر سلووینیہ کے مسلمانوں کے مفتی نجات قرابرس نے اسے ملکی تاریخ کا سنگ میل قرار دیا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کی درخواست کے پینتیس برس لُبلیانہ بلدیاتی حکام نے مسلمانوں کی کونسل کو اجازت نامہ کی اطلاع دی۔
ابتدا میں اسے تعمیر کے لیے مالیاتی مسائل کا سامنا ہوا اور دوسری جانب دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی بھی مخالفت جاری رہی۔ اس کی باضابطہ تعمیر سن 2013 میں شروع ہوئی۔ اس پر چونتیس ملین یورو یا انتالیس ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ اس مجموعی لاگت میں قطری حکومت نے اٹھائیس ملین یورو فراہم کیے۔
یہ مسجد لُبلیانہ کے نیم صنعتی علاقے میں تعمیر کی گئی ہے۔ اس میں ایک وقت میں چودہ سو نمازی جمع ہو سکتے ہیں۔ اس کا مینار چالیس میٹر بلند ہے۔ اس کا گنبد نیلے رنگ کا ہے، جو استنبول کی تاریخی نیلی مسجد کی یاد دلاتا ہے۔ اس گنبد کی وجہ سے مسجد کے اندر نیلی روشنی بھی دلفریب منظر پیش کرتی ہے۔
اس مسجد کی عمارت کے ایک جانب سلووینیہ کی مسلم کمیونٹی کا دفتر بھی قائم کیا جائے گا۔ یہ سلووینیہ کے مسلمانوں کا اسلامی ثقافتی مرکز بھی ہو گا۔
اس یورپی ملک کی کل آبادی میں مسلم اقلیت کا حجم ڈھائی فیصد کے لگ بھگ بنتا ہے۔ مقامی مسلم کمیونٹی کا خیال ہے کہ مسجد کی تعمیر میں تاخیر سے کئی نوجوان مذہب سے دور ہو چکے ہیں۔
ع ح ⁄ ع ا (اے ایف پی)