نظام ہاضمہ سے متعلق بیماریاں دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہیں
22 مارچ 2011عام طور پر’خاموش قاتل‘ کےنام سے جانی جانے والی اس مرکب کیفیت میں اگر اضافہ ہو جائے، تو بہت ممکن ہے کہ یہ دل کے دورے یا فالج کے حملے کا سبب بھی بن جائے۔
جرمنی کے معروف اینڈوکرائینالوجسٹ اور جرمن ذیابیطس ایسوسی ایشن کے علاوہ برلن کی ایسوسی ایشن ذیابیطس ڈی ای سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شٹیفان یاکوب کے مطابق طرز زندگی سے متعلق یہ بیماریاں اکثر و بیشتر ایک ساتھ رُونما ہوتی ہیں۔
جنوبی جرمن شہر میونخ میں جرمن اوبیسیٹی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے غذائی میڈیسن کے ماہر ہَنس ہاؤنر کہتے ہیں کہ دل کے دورے یا فالج کے حملے میں اکثر بڑا اہم کردار انسانی جسم میں موجود وہ چربی ادا کرتی ہے، جو خاص طور سے کمر کے ارد گرد جمع ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق یہ وہ بنیادی وجہ ہے جو وزن کی زیادتی، بلند فشار خون اور ذیابیطس کو دعوت دیتی ہے۔ اس جرمن ماہر کے مطابق جسم میں چربی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ زیادہ حرارے رکھنے والےکھانے کھانا اور کم ورزش کرنا بھی ہے۔
ڈاکٹر Hauner کے مطابق نظام ہضم سے متعلق بیماری کُل چار میں سے کسی بھی تین خطرناک مرکب عوامل کے باعث دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انسانی جسم کا پیٹ کے اردگرد کا حصہ یعنی کسی بھی شخص کی ’ویسٹ لائن‘ جتنی زیادہ ہو گی، اتنا ہی زیادہ اسے طبی خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔‘‘
تاہم ان کے مطابق ضروری نہیں کہ زیادہ وزن کا حامل ہر شخص نظام انہضام سے متعلق کسی بیماری کے خطرے کا سامنا بھی کرتا ہو۔ ان کے مطابق بہت سے جینیٹک یا وراثت میں ملنے والے عناصر اور عوامل ایسے بھی ہوتے ہیں، جو عام لوگوں کی ایسی کسی بیماری کا شکار ہونے کے خلاف حفاظت کرتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق وہ افراد زیادہ وزن کے حامل سمجھے جاتے ہیں جن کا باڈی ماس انڈکس یا BMI پچیس سے زیادہ ہو۔ ڈاکٹر شٹیفان یاکوب کے مطابق بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کی جانب سے جاری کیے گئے رہنما اصولوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو عام مردوں کی کمر 94 سینٹی میٹر اور خواتین کی کمر 80 سینٹی میٹر سے زیادہ ہونا صحت کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر یاکوب کہتے ہیں کہ ماہرین کے مطابق نظام ہضم سے متعلق بیماری یا میٹابالک سنڈروم کا کوئی ایک خاص علاج نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجہ بننے والے عوامل اور عناصر سے بچا جائے۔ مثال کے طور پر بلند فشار خون جو کہ دل، دماغ اور گردوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے،130/85 mgHgسے آگے نہیں بڑھنا چاہیے جبکہ جسم میں موجود کولسٹرول کی سطح کو بھی قابو میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ جسم میں کم سے کم خطرناک چربی جمع ہو۔
ڈاکٹر یاکوب کے مطابق نظام ہضم کو خراب کرنے والے چاروں عناصر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وزن کم رکھا جائے۔ ان کے مطابق اگر آپ کو یہ بیماری لاحق ہو گئی ہے اور ایسے میں آپ دو سے پانچ کلو وزن بھی کم کر لیتے ہیں، تو اس سے خون میں موجود شکر کی سطح پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ مریضوں کو چاہیے کہ وہ جو بھی غذا دن بھر استعمال کر رہے ہیں، اس کا کسی ڈائری میں اندراج کرتے جائیں، جس کے حساب سے وہ اپنی غذائی عادات میں رد و بدل بھی کر سکیں۔ اس کے علاوہ دن میں تھوڑی بہت ورزش بھی بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر یاکوب کے مطابق اگر روزانہ کی جانے والی چہل قدمی کے دوران اٹھائے گئے قدموں کی تعداد700 سے 4300 تک کر دی جائے تو یہ عمل بھی خون میں موجود شکر کی سطح کو اس کی عام سطح تک لے جانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: مقبول ملک