نقاب جرمن معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتا، جرمن وزیر داخلہ
19 اگست 2016وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ خواتین کی طرف سے پورے چہرے کو چھپانا جرمن معاشرت سے ہر گز میل نہیں کھاتا، مگر پورے ملک میں اس پر پابندی عائد کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔
جرمنی میں لاکھوں مہاجرین کی آمد، دہشت گردانہ واقعات میں اضافے اور معاشرتی سطح پر اسلام اور جرمن معاشرے کے حوالے سے جاری بحث کے اعتبار سے ڈے میزیئر کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کے کئی اہم سیاست دان یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ملک میں برقعے اور نقاب پر پابندی عائد کی جائے، کیوں کہ اس سے خواتین میں ’کم تری کا احساس‘ پیدا ہوتا ہے اور ایسی خواتین جرمن معاشرے میں انضمام کے عمل سے دور ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ چہرے پر نقاب سے سلامتی کے خطرات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
جرمنی میں گزشتہ ماہ یکے بعد دیگرے متعدد دہشت گردانہ حملے ہوئے، جن میں سے دو کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی تھی۔
گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے، جس کی وجہ چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی تھی، تاہم ان دہشت گردانہ واقعات کے بعد جرمن عوام بھی اس بارے میں خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ شاید مختلف ثقافت اور مذہب کے افراد ان کے ملک پر قابض ہو سکتے ہیں، یا ان کی ثقافت اور معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
ڈے میزیئر نے قدامت پسند ریاستی وزراء داخلہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم ان خواتین کے خلاف ہیں، جو پورا چہرہ چھپاتی ہیں یا برقعہ پہنتی ہیں۔ ہمارے ملک میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ ہماری نگاہ میں عورت کے کردار سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔‘‘
دہشت گردانہ حملوں کے بعد کی صورت حال اور سلامتی کے خدشات کے تناظر میں ہونے والے اس اجلاس کے بعد ڈے میزیئر نے تاہم کہا کہ برقعہ پہننے پر کوئی بھی ممکنہ پابندی جرمن آئین سے ہم آہنگ ہو گی یا نہیں، اس پر آئینی ماہرین سے بات چیت کرنا پڑے گی۔
جرمنی میں چار ملین مسلمان آباد ہیں، جو ملک کی مجموعی آبادی کا پانچ فیصد حصہ بنتا ہے۔ اس حوالے سے سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ ملک میں مقیم مسلم خواتین میں سے کتنے فیصد برقعہ پہنتی یا نقاب کی صورت میں چہرے کا مکمل پردہ کرتی ہیں، تاہم جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے رہنما ایمن مازیک کا کہنا ہے کہ جرمنی میں شاید ہی کوئی مسلم خاتون اپنا چہرہ چھپاتی ہو۔
سن 2009ء میں جرمن میں مہاجرت اور پناہ گزینوں کے وفاقی دفتر کی جانب سے کرائے گئے ایک مطالعاتی جائزے کے نتائج سے پتہ چلا تھا کہ جرمنی میں مقیم مسلم خواتین میں سے دو تہائی ہیڈ اسکارف تک نہیں پہنتیں۔