نواز شریف اور سعودی عرب کا عسکری اتحاد پھر بحث کا مرکز
27 مارچ 2017وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کے دن اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ حکومت نے انتالیس ممالک کے اس عسکری اتحاد کی سربراہی کرنے کے لیے سابق آرمی چیف راحیل شریف کو این او سی جاری کر دیا ہے۔ اس کی مخالفت پاکستان کے مختلف حلقوں میں ہو رہی تھی لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے مخالفت کے بعد یہ مسئلہ ایک بار پھر نمایاں ہوگیا ہے۔
اس فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہماری پارٹی کسی ایسے حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کر سکتی، جس سے مسلم ممالک کے درمیان نفاق پڑنے کا خدشہ ہو۔ حکومت نے نہ صرف تحریک انصاف کو اس مسئلے پر اعتماد میں نہیں لیا بلکہ حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں سے بھی اس مسئلے پر بات چیت نہیں کی۔ یہاں تک کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اس عسکری اتحاد کی تفصیلات سے لا علم ہیں۔ ہمیں ابھی تک یہی معلوم نہیں کہ یہ اتحاد کیوں بنایا گیا ہے؟ اس کے مقاصد ہیں اور یہ کس طرح کام کرے گا؟ ایسی صورت میں ہم اس فیصلے کی کیسے حمایت کر سکتے ہیں؟‘‘
علی محمد خان نے کہا کہ اس فیصلے کے منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ ’’یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ اتحاد چند مسلم ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے، نہ کہ تمام مسلم ممالک کے لیے۔ ہمیں اس حوالے سے بہت محتاط رہنا چاہیے۔ ملک میں ایک بڑی تعداد ہمارے شیعہ بھائیوں کی ہے۔ ہمیں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، جس سے ملک میں انتشار پھیلے۔ اس فیصلے کی وجہ سے ملکی آبادی کے کچھ حصوں میں اشتعال پیدا ہو سکتا ہے، جس سے پاکستان کو نقصان ہوگا۔ چونکہ ہمارے لیے سب سے اہم پاکستان ہے، لہٰذا ہم کسی ایسے فیصلے کی حمایت نہیں کر سکتے، جس کی وجہ سے ہمار اپنا ملک انتشار کا شکار ہو جائے۔ اگر اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے، تو بات چیت کے بعد اس کی حمایت کرنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ کسی مسلم ملک کے خلاف ہے، تو ہمیں اس اتحاد کا حصہ بالکل نہیں بننا چاہیے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے اس رکن پارلیمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس تمام راستے موجود ہیں۔ ’’ہم پہلے اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے، پھر عدالت سے رجوع کریں گے اور اس کے علاوہ احتجاج کا راستہ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘
کئی تجزیہ نگار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس سعودی عسکری اتحاد میں شمولیت پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں پہلے ہی شیعہ سنی مسئلہ سنگین ہے۔ ماضی میں ہزاروں افراد فرقہ ورانہ بنیادوں پر مارے گئے۔ اب حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ اگر ہم اس عسکری اتحاد کا حصہ بنے، تو کالعدم تنظیمیں ایک بار پھر اپنی پوری طاقت سے سرگرم ہو جائیں گی۔ ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی مزید بڑھے گی، جس سے نقصان پاکستان ہی کو ہو گا۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا، ’’ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی اس فیصلے کے حق میں ہے اور نواز شریف کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے وہ بھی اس فیصلے کے حامی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی نے اس پر ایک اصولی موقف اپنایا ہے، جو یقیناً ملک کے مفاد میں ہے۔‘‘
راحیل شریف کو زمین ملنے کی خبر میں سازش کی بُو؟
راحیل شریف کوئی ’غلط قدم نہیں اُٹھائیں‘ گے، جنرل اعوان
’سعودی فوجی اتحاد کے کمانڈر راحیل شریف‘: دانش مندانہ فیصلہ؟
دوسری طرف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی جانتی ہے کہ عوامی جذبات اس اتحاد کے خلاف ہیں، اسی لیے وہ اس موضوع پر سرگرم ہے، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی ایک پرو اسٹیبلشمنٹ جماعت ہے۔ لیکن اس مسئلے پر اس نے وہی موقف اپنایا ہے، جو اس نے پارلیمنٹ میں اس حوالے سے ہونے والی بحث میں اپنایا تھا۔ اس بحث میں نون لیگ اور دوسری جماعتوں نے بھی سعودی عرب فوج بھیجے جانے کے خلاف بات کی تھی۔ فوج کے لوگ بھی اس کے خلاف تھے۔ لیکن اب مسلم لیگ نواز نے یہ فیصلہ کر لیا ہے۔ میرے خیال میں حکومت پر اس فیصلے کے حوالے سے فوج کا کوئی دباؤ نہیں تھا اور یہ فیصلہ حکومت نے خود کیا ہے۔ یہ حکومت اور سعودی فرماں روا کے مابین پائی جانے والی قربت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے،‘‘
ایک سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ نے کہا، ’’پاکستان میں آرمی چیف کا عہدہ سب سے اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے اور اس عہدے کا لوگوں کی نظر میں بہت احترام بھی ہے۔ اسی لیے زیادہ تر فوجی سربراہان نے اپنی مدتِ ملازمت پوری ہونے کے بعد کوئی دوسری نوکری نہیں کی۔ جنرل جہانگیر کرامت اور راحیل شریف دو ایسے جنرل ہیں، جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد نوکریاں کرنے کا فیصلہ کیا۔ عوام کو یہ مناسب نہیں لگتا کہ اتنے اعلٰی منصب پر فائز ہونے کے بعد راحیل شریف کسی دوسرے ملک میں نوکری کریں۔ میرا خیال ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ راحیل شریف باہر رہیں کیونکہ اگر وہ ملک کے اندر رہیں گے تو جہاں کہیں بھی وہ جائیں گے، انہیں ہیرو کا درجہ دیا جائے گا، جو حکومت کو پسند نہیں۔‘‘