نواز شریف کی احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف ’اپیل آئندہ ہفتے‘
14 جولائی 2018جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کی قانونی ماہرین کی ٹیم کے رکن امجد پرویز نے بتایا، ’’ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل اور ضمانت پر رہائی کی درخواست پیر سولہ جولائی کو جمع کرائیں گے۔‘‘
جمعہ تیرہ جولائی کی شب پاکستان واپس پہنچنے پر نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور بعد ازاں انہیں لاہور سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے ترجمان مشاہد اللہ خان نے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’وہ لوگ مقدمے کی کارروائی کو میڈیا کی نظروں سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کوئی ’دہشت گرد‘ نہیں ہیں، اس لیے ان کے مقدمے کی سماعت جیل میں نہیں ہونا چاہیے۔ مشاہد اللہ خان کے مطابق، ’’اگرچہ ہمیں انصاف کی توقع نہیں ہے لیکن لوگوں کو اس مقدمے کی کارروائی کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔‘‘
شہباز شریف اور لیگی رہنماؤں کے خلاف مقدمے
گزشتہ روز نواز شریف کی لاہور آمد کے موقع پر شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو ایئر پورٹ پہنچنے سے روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ نواز شریف کی آمد سے قبل پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو حراست میں بھی لے لیا گیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے ہزاروں کارکنوں نے پارٹی کے موجودہ صدر اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی قیادت میں ایئر پورٹ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔
پاکستانی صوبہ پنجاب کی نگران حکومت نے شہباز شریف کی ریلی کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ یہ ریلی نکالنے کے باعث آج چودہ جولائی کے روز شہباز شریف اور مشاہد اللہ خان سمیت مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا، ’’گزشتہ روز میڈیا میں ہماری پر امن ریلی کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا، جو افسوس ناک ہے۔ مشاہد اللہ خان جیسے لوگوں کے خلاف بھی دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جو چاہیں بھی تو کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔‘‘
لاہور میں ایک نیوز کانفرنس میں شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے رہنما نواز شریف کے لیے ’انصاف کی فراہمی‘ یقینی بنانے کی خاطر قانون کی حدود میں رہتے ہوئے احتجاج سمیت ہر قانونی اور سیاسی طریقہ کار اختیار کریں گے۔