1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’نواز شریف پاکستانی سیاست سے ابھی غیر متعلق نہیں‘

3 جولائی 2023

پاکستان کی عدالتوں کو مطلوب پاکستان کے سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف پچھلے ڈیڑھ ہفتے سے دبئی میں موجود ہیں، جہاں وہ پاکستان کی سیاست اور معیشت کے بارے میں اہم فیصلوں کے لیے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4TMLh
تصویر: Getty Images/S. Platt

نواز شریف ایک ایسے موقع پر دبئی پہنچے ہیں جب مسلم لیگ ن کی قیادت میں بننے والی وفاقی حکومت کی مدت ختم ہونے والی ہے اور ملک میں کسی بھی وقت نئے انتخابات کا اعلان ہو سکتا ہے۔ ان کی دبئی آمد سے کچھ ہی دیر پہلے پاکستان کی پارلیمنٹ نے ارکان اسمبلی کی نا اہلی کی مدت کو پانچ سال تک محدود کرنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔

نواز شریف کی مصروفیات

لندن کے بعد آج کل دبئی بھی پاکستانی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے، جہاں نواز شریف سے ملنے کے لیے شریف فیملی کے ارکان، پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کے رہنما نواز شریف سے مل رہے ہیں۔ پاکستان کی کئی اہم غیر سیاسی شخصیات بھی اس وقت دبئی میں موجود ہیں۔

Pakistan Nawaz Sharif und Asif Zardari in Islamabad
’’نواز شریف دبئی میں کافی مصروف ہیں اور انہوں نے دبئی میں اپنے قیام کی مدت کو بڑھا دیا ہے‘‘تصویر: picture-alliance/ dpa

نواز شریف معاشی ماہرین، توانائی میں دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں اور سیاسی لیڈروں سے مل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نئی سیاسی جماعت استحکام پارٹی کے رہنماؤں سے بھی بات چیت کی ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف دبئی کے شاہی خاندان سے بھی ملے ہیں۔

دبئی میں موجود ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک کے ''فیصلہ ساز‘‘ حلقوں کی طرف سے بھی کچھ لوگوں نے نواز شریف کے ساتھ مل کر تبادلہ خیال کیا ہے۔ نواز شریف دبئی میں کافی مصروف ہیں اور انہوں نے دبئی میں اپنے قیام کی مدت کو بڑھا دیا ہے اور اطلاعات کے مطابق اگلے چند دنوں میں وہ دبئی سے اپنی فیملی کے ہمراہ سعودی عرب بھی جائیں گے۔

تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف پاکستان کی سیاست و معیشت اور پاکستان مسلم لیگ ن  کے معاملات کے بارے میں مشاورت کر رہے ہیں اور ان کا فوکس پاکستان کے مستقبل کے سیاسی و معاشی حالات کی صورت گری پر ہے۔ جبکہ بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاشی ماہرین سے ملاقاتوں کا پراپیگنڈہ کرکے ن لیگ اپنا امیج بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملکی معیشت کے بارے میں حکومت میں بیٹھے شہباز شریف کو پہلے ہی سب معاشی فیصلے کرنے کی قانونی آزادی میسر ہے لیکن ان کے فیصلوں سے عوام کی معاشی مشکلات میں کتنی کمی آئی ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ 

نواز شریف دبئی کیوں آئے؟

سینیئر صحافی جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ایسی فضا بنائی جا رہی تھی کہ مستقبل کی حکومت پیپلز پارٹی ہی بنائے گی اور بلاول یا آصف زرداری ملک کے اگلے وزیر اعظم ہو سکتے ہیں۔ آصف زرداری کے دورہ لاہور کے موقع پر بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے اس طرح کے اشارے دیے گئے تھے۔ لیکن نواز شریف نے دبئی آ کر اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے دبئی کے دورے سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت پاکستان کی سیاست میں غیر متعلق نہیں ہوئے ہیں۔ 

پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف نے دبئی میں نئے نگران سیٹ اپ، الیکشن کی تیاریوں، پارٹی کی تنظیم نو اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ انتخابی تعاون کے امکانات پر بھی مشاورت کی ہے۔

صحافی نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان مسلم لیگن کے صدر شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد پارٹی کے بہت سے امور زیر التوا تھے۔ نواز شریف نے اس بارے میں بھی مریم نواز سے مل کر پارٹی کے بارے میں اہم فیصلے کیے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق نواز شریف سے دبئی میں ملنا بہت سے پاکستانیوں کے لیے لندن جانے کی نسبت بہت آسان ہے اور دبئی میں لندن میں نواز شریف کے گھر اور دفتر کے باہر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

دبئی میں کیا فیصلے ہوئے؟

اگرچہ پاکستان مسلم لیگ ن اور نواز شریف کو ملنے والے افراد ان ملاقاتوں کے بارے میں راز داری کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں میڈیا میں صرف ن لیگ کے میڈیا سیل سے ریلیز ہونے والی خبریں ہی گردش کر رہی ہیں لیکن جاوید فارووقی نے مصدقہ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دبئی میں نواز شریف اور پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے اصولی طور پر اپنی حکومت یا نگران حکومت کی مدت نہ بڑھانے اور الیکشن میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق دبئی ملاقاتوں میں صرف الیکشن تک کے معاملات کے بارے میں روڈ میپ پر اتفاق رائے ہوا ہے جبکہ الیکشن کے بعد اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے بات چیت فی الحال موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ملک کے نگران وزیر اعظم کے بارے میں بھی مشاورت مکمل کر لی گئی ہے۔ ان کے بقول ملک کا متوقع نگران وزیر اعظم بھی اس وقت دبئی میں موجود ہے۔

نواز شریف کے خلاف عدلیہ نے کوئی سیاست نہیں کی، ثاقب نثار

نواز شریف اتنے پر اعتماد کیوں ہیں؟

پاکستان مسلم لیگ ن کے حلقے نواز شریف کو دبئی ملاقاتوں کے حوالے سے مستقبل کے حکمران کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ نواز شریف کو جس طرح دبئی میں سرکاری پروٹوکول ملا ہے اس سے بھی ان کے دورے کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ سینیئر صحافی مجیب شامی کے بقول نواز شریف کے اعتماد کی وجہ یہ ہے ان کی پنجاب میں حریف جماعت پی ٹی آئی تتر بتر ہو چکی ہے اور وہ پنجاب میں بچی کھچی پی ٹی آئی کو شکست دے کر مستقبل میں وفاقی حکومت بنانے کے لیے پرامید ہیں۔ ان کے نزدیک نواز شریف تجربہ کار سینیئرسیاستدان ہیں، جن کے اندرون اور بیرون ملک اچھے رابطے ہیں اور کاروباری حلقے بھی انہیں امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

 سینیئر تجزیہ کار نوید چوہدری کا خیال ہے کہ نواز شریف کے اعتماد کی وجہ ان کو دستیاب اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی ہوسکتی ہے۔  تجزیہ کار سلیمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف دبئی میں بیٹھ کر پاکستان کے مستقبل کی سیاست کے حوالے سے اہم فیصلے کر رہے ہیں، ''اس بات کا بھی امکان موجود ہے کے وہ الیکشن میں حصہ نہ لیں لیکن اس صورت میں بھی وہ مسلم لیگ ن کی انتخابات میں کامیابی کے بعد تمام اہم فصیلے خود کریں گے ۔‘‘

کیا عدالتوں کو مطلوب شخص ملک کے بارے میں اہم فیصلے کا حق ہے؟

پاکستان مسلم لیگ ن کے مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کو عدالت سے سزا ہوئی اور وہ عدالتوں کو مطلوب ہے۔ اسے اخلاقی طور پر پاکستان کے بارے میں اہم فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ تجزیہ کار مجیب شامی کہتے ہیں کہ بظاہر تو یہ بات درست لگتی ہے لیکن نواز شریف پر مقدمات کیوں اور کیسے بنائے گئے یہ سب کچھ اب سامنے آ چکا ہے۔ ان کے مطابق نواز شریف عدالتی منظر نامہ تبدیل ہونے پر ستمبر میں ملک میں واپس آ سکتے ہیں اور انہیں عدالتوں سے ریلیف ملنے کا امکان ہے۔