نوازشریف کے قانونی آپشنز: اپیلوں میں وقت لگ سکتا ہے
6 اگست 2021اُدھربرطانوی اور پاکستانی قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قائد مسلم لیگ کی واپسی اتنی جلدی اور آسانی سے نہیں ہوگی بلکہ اپیلوں کا سلسلہ طول پکڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی عدالتوں سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا ہوئی ہے اور وہ طبی وجوہات کی بنیاد پر برطانیہ علاج کرانے کے لیے گئے تھے۔ حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق پاکستان نہیں آئے۔ نواز شریف برطانیہ میں وزٹ ویزے پر ہیں اور مسلم لیگ نون کا دعویٰ ہے کہ وہ علاج کی غرض سے وہاں قیام پذیر ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ نوازشریف وہاں بیٹھ کے ناصرف پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے بلکہ انہوں نے ملک کی طاقتور ترین افواج کے خلاف بھی نفرت آمیز بیانات جاری کیے ہیں۔
پاسپورٹ کی تجدید کا مسئلہ: میاں صاحب کی مشکلات بڑھیں گی؟
برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ کے حالیہ فیصلے سے پاکستان میں کئی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اب نواز شریف کو واپس آنا پڑے گا خصوصاً تحریک انصاف کے کارکنان یہ شادیانے بجا رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کسی وقت بھی واپس جیل میں ہوں گے۔ لیکن برطانوی اور پاکستانی قانونی ماہرین کی رائے اس کے برعکس ہے۔
لندن سے تعلق رکھنے والے معروف پاکستانی نژاد قانونی ماہر بیرسٹر گل نواز خان کا کہنا ہے یہ صرف ایک ڈیپارٹمنٹ کا فیصلہ ہے اور اس کے خلاف نواز شریف کو اگر اپیل کا حق دیا گیا تو یہاں، ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نواز شریف کے وکلاء نے اس اپیل کے مسترد کیے جانے کے حوالے سے میڈیا کو کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی ہوم ڈیپارٹمنٹ کچھ بتانے کے لیے تیار ہے۔ جو خبریں ابھی تک آئیں ہیں اس سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ نوازشریف کو اپیل کا حق ہے۔ اگر سابق وزیراعظم کو یہ حق ملتا ہے، تو یہ حق بالکل اسی نوعیت کا ہوگا جس طرح پاکستان کے قانونی نظام میں ہے کیونکہ برطانیہ اور پاکستان کے قانونی نظام میں بہت سارے نکات ایک جیسے ہیں۔‘‘
بیرسٹرگل نواز خان کے بقول اگر ان نواز شریف کو اپیل کا حق ہے تو سب سے پہلے وہ امیگریشن ٹریبونل میں اپنے اس حق کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول،'' یہ فورم ان کے خلاف فیصلہ بھی دے سکتا ہے یا ہم ڈیپارٹمنٹ کو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اپیل کو دوبارہ سے سنا جائے۔ اس کے بعد اگر ان کی اپیل مسترد ہوتی ہے اور اگر انہیں مزید اپیل کا حق دیا جاتا ہے تو وہ فرسٹ ٹریبونل میں اپنی اپیل کریں گے اور اگر وہاں سے بھی اپیل مسترد ہو جاتی ہے تو اپرٹربیونل میں اپیل کر سکتے ہیں۔ اپیلوں کے اس سارے عمل میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ تو ضروری نہیں کہ فوری طور پر واپسی ہو یا فوری طور پر ان کو کہا جائے کہ وہ برطانیہ چھوڑ دیں۔‘‘
بیرسٹر گلنواز خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ نواز شریف پاسپورٹ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ان کے بقول حکومت پاکستان ان اپیل کے مراحل میں فریق نہیں بن سکتی کیونکہ یہ برطانیہ کا اندرونی معاملہ ہے۔
شہباز شریف ن لیگ اور نواز شریف کے وفادار نہ ہوتے تو آج وزیراعظم ہوتے، مریم نواز
بیرسٹر گلنواز خان کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف چاہیں تو وہ سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ بیرسٹر نواز کہتے ہیں،'' سیاسی پناہ کے لیے کوئی وقت کی قید نہیں وہ کسی وقت بھی سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں لیکن ان کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے یا ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔‘‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان ریاض حسین بلوچ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا مقدمہ عبدالحمید جتوئی کے کیس سے مماثلت رکھتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' تاہم عبدالحمید جتوئی کو سزا نہیں ہوئی تھی اور نواز شریف سزا یافتہ ہیں ۔ تو ایسی صورت میں ان کے وکلاء کی طرف سے درخواست ضمانت دی جاسکتی ہے۔ یہ ضمانت عام ضمانت سے مختلف ہوگی اور یہ انتہائی محدود وقت کے لیے ہوگی۔ یہ اس لیے دی جائے گی کہ وہ جا کر متعلقہ عدالت میں اپنے آپ کو پیش کریں۔‘‘
ریاض حسین بلوچ کے مطابق تاہم حکومت پاکستان قانونی بنیادوں پر نواز شریف کے لیے کسی بھی طرح کی قانونی ریلیف کی مخالفت کر سکتی ہے اور یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ سزا یافتہ ہے اور اپنے وعدے کے مطابق وہ واپس بھی نہیں آئے اور عدالت سے مفرور ہیں اور کیونکہ وہ عدالت سے مفرور ہیں اس لیے ان کو ریلیف نہیں دی جانی چاہیے۔
مودی کا تعزیت نامہ نواز شریف کے نام بذریعہ مریم نواز
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ نواز شریف اگر پاکستان واپس آئیں تو ان کو گرفتار کیا جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' کیوں کہ جس شخص نے نواز شریف کو ایک مقدمے میں سزا دی تھی، اس کا کردار مشکوک تھا۔ اس کے حوالے سے کچھ ایسی ویڈیوز سامنے آئی تھیں جس نے فیصلے کو متنازعہ بنا دیا تھا۔ یہ ان کے لیے ایک مضبوط گراؤنڈ ہوسکتا ہے اور اس بنیاد پر ان کی سزا معطل کی جا سکتی ہے۔ یہ ضمانت عام معنوں میں ضمانت نہیں ہوتی بلکہ سزا کی معطلی ہوتی ہے۔ کسی اور مقدمے میں ان ہی وجوہات کی بنا پر ان کی سزا معطل بھی ہوئی ہے۔‘‘
جسٹس وجیہ الدین احمد کا مزید کہنا تھا کہ جب نواز شریف جا رہے تھے، تو اس وقت ایک حلف نامہ شہباز شریف نے جمع کرایا تھا۔ '' اس میں یہ نکتہ درج ہے کہ وہ کوشش کریں گے کہ اپنے بھائی کو چار ہفتوں میں واپس لے کر آئیں۔ لیکن اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ انہیں چار ہفتوں میں بھی واپس لایا جا سکتا ہے یا ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کریں کے وہ صحت مند ہوگئے ہیں اور پاکستان جانے کے لیے جسمانی اعتبار سے فٹ ہیں۔ تو یقینا نون لیگ اس قانونی نکتے کو استعمال کرے گی کیونکہ برطانیہ میں بھی ہوم ڈیپارٹمنٹ سے درخواست مسترد کیے جانے پر جو قانونی نکات ن لیگ اٹھا رہی ہے، ان میں ایک نکتہ یہ بھی ہے۔‘‘
عبدالستار ۔ اسلام آباد