نوجوان خاندانوں کے لیے بہترین ممالک: شمالی یورپ سب سے آگے
13 جون 2019اقوام متحدہ کے بچوں کے بہبودی ادارے یونیسیف کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں، جسے ایک ترقی یافتہ براعظم اور سماجی سہولیات فراہم کرنے والا خطہ قرار دیا جاتا ہے، نوجوان خاندانوں کو سرکاری طور پر مہیا کردہ سماجی سہولیات کی منظر نامہ بہت متنوع ہے۔
مثال کے طور پر شمالی یورپ میں بالٹک کی جمہوریہ ایسٹونیا میں ملازمت پیشہ نوجوان ماؤں کو ریاست کی طرف سے مجموعی طور پر 85 ہفتوں یا تقریباﹰ بیس ماہ تک اس طرح تمام تر مالی ادائیگیاں کی جاتی ہیں کہ اس دوران انہیں اپنے شیرخوار بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرنا ہوتا۔
دوسری طرف سوئٹزرلینڈ میں تنخواہ کے ساتھ چھٹی کی ایسی سہولت کا دورانیہ صرف آٹھ ہفتے یا تقریباﹰ دو ماہ ہوتا ہے جبکہ پانچ یورپی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کسی بچے کی پیدائش پر والدین میں سے کسی کو بھی تنخواہ کے ساتھ ملازمت سے چھٹی کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔
یونیسیف کی اس رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں چھوٹے بچوں والے گھرانوں سے متعلق سب سے زیادہ خاندان دوست سیاسی اور سماجی پالیسیوں والے ممالک اسکینڈے نیویا کی ریاستیں سویڈن، ناروے اور آئس لینڈ ہیں۔
اس مطالعے کے دوران اقوام متحدہ کی طرف سے یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف ممالک میں چھوٹے بچوں کے والدین کو، جو مائیں بھی ہوسکتی ہیں اور ایسے بچوں کے باپ بھی، پوری تنخواہ کے ساتھ کام کاج سے چھٹی کی سہولت کس حد تک دستیاب ہے۔
2016ء کے دوران یورپ کے 31 ممالک میں مکمل کیے گئے اس طویل جائزے سے پتہ یہ چلا کہ اس سلسلے میں یورپ کے دس بہترین ممالک ایسٹونیا، سویڈن، ناروے، آئس لینڈ، پرتگال، جرمنی، ڈنمارک، سلووینیہ، لکسمبرگ اور فرانس ہیں، جو ساتھ ہی اسی شعبے میں دنیا کے دس بہترین ممالک بھی ہیں۔
دوسری طرف انہی 31 یورپی ممالک میں سے یورپ کی حد تک سب سے بری کارکردگی یا کم ترین حد تک خاندان دوست سرکاری پالیسیوں والی دس ریاستوں میں آئرلینڈ، برطانیہ، قبرص اور یونان نمایاں ترین تھے۔
اس بارے میں یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریئٹا فور نے کہا، ''کسی بھی نومولود بچے کی زندگی کے شروع کے چند برسوں کے مقابلے میں ایسا اور کوئی عرصہ ہوتا ہی نہیں، جو اس کی دماغی نشو و نما اور یوں اس کے مستقبل کی تیاری کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہو۔‘‘
انہوں نے کہا، ''ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں نوجوان خاندانوں کو ایسی سہولیات مہیا کریں کہ وہ اپنے کم سن بچوں کو ان کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے کافی وقت دے سکیں اور ساتھ ہی انہیں کسی بھی طرح کے مالی مسائل کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔‘‘
یونیسیف کی تمام ممالک کے لیے تجویز
اپنی اس رپورٹ میں یونیسیف نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں چھوٹے بچوں کے والدین کو ان بچوں کی پیدائش کے بعد سے لے کر ان کے اسکولوں میں پہلی جماعت میں داخلے تک کے دوران ایک ہی بار یا وقفوں سے مجموعی طور پر چھ ماہ تک ایسی چھٹی دی جائے، جس میں ان کو ان کی مکمل تنخواہ بھی ملتی رہے۔
اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق نوجوان ماؤں کو یورپ میں ان کے چھوٹے بچوں کے لیے ایسٹونیا میں 85 ہفتے، ہنگری میں 72 ہفتے اور بلغاریہ میں 65 ہفتے کی طویل ترین چھٹیاں بمع تنخواہ ملتی ہیں۔
اس کے برعکس ان چھٹیوں کا دورانیہ پرتگال میں صرف ساڑھے بارہ ہفتے اور لکسمبرگ میں محض ساڑھے دس ہفتے بنتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ چیک جمہوریہ، سلوواکیہ، آئرلینڈ اور قبرص جیسے یورپی ممالک میں کسی بھی خاتون یا اس کے شوہر کو ان کو گھر کسی بچے کی پیدائش کے بعد تنخواہ کے ساتھ کوئی چھٹی نہیں دی جاتی۔
جرمنی میں صورت حال
جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، کسی بھی خاتون کو اس کے ہاں بچے کی پیدائش کے بعد 43 ہفتوں تک پوری تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جاتی ہے، جو وہ ماں بننے کے بعد کے دو تین برسوں میں لے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے کسی بچے کو والد کو بھی تقریباﹰ چھ ہفتوں کی چھٹی ملتی ہے۔
اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یوں نوجوان مائیں اس چھٹی کے بعد اپنے شیرخوار بچوں کی روزانہ کی ذمے داریوں سے کسی حد تک اس لیے آزاد رہ سکتی ہیں کہ جرمنی میں تین سال سے کم عمر کے تمام بچوں میں سے 33 فیصد کی دیکھ بھال عام دنوں میں کام کاج کے اوقات میں کسی نہ کسی ڈے کیئر سینٹر میں کی جاتی ہے۔
وہ بچے جن کی عمریں تیں اور چھ سال کی عمر میں پہلی جماعت میں اسکول شروع کرنے کے درمیان ہوتی ہیں، ان میں سے 92 فیصد بچے دن کے وقت ان ڈے کیئر سینٹرز میں اپنا وقت گزارتے ہیں، جو کنڈر گارٹن کہلاتے ہیں۔
م م / ع ت / آلیکسانڈر پیئرسن