نوجوان پاکستانی خاتون کوہ پیما کے ریکارڈز
31 جولائی 2014پاکستان میں ہنزہ کی وادی سے تعلق رکھنے والے نوجوان کوہ پیما مرزا علی بیگ اور ثمینہ خیال بیگ بھائی بہن ہیں۔ اس کوہ پیما جوڑی نے گزشتہ دنوں روس کے بلند ترین پہاڑ البروز پر سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کارنامےکے بعد ثمینہ بیگ سات برّاعظموں میں سات بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کر گئیں ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ثمینہ بیگ نے بتایا کہ انہوں نے آٹھ ماہ کے مختصر عرصے میں سات چوٹیاں سر کرنے کا مشن مکمل کیا۔’’ہم لوگوں کا مشن تھا ایڈونچر ڈپلومیسی۔ اس کا پیغام تھا پاکستان میں مرد اور عورت کی برابری کے تصور کو ابھارنا اور عورت کو با اختیار بنانا۔ ہم نے سات براعظموں کی سات چوٹیاں سر کرنے کے اس مشن کا آغاز دسمبر میں کیا تھا اور ہم اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ بحیثیت پہلی پاکستانی اور پہلی مسلمان خاتون کے اس کامیابی کو حاصل کر کے مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔‘‘
ثمینہ کا مزید کہنا تھا کہ اس مشن کا مقصد لوگوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر خواتین کو مواقع دیئے جائیں تو وہ بھی کئی شعبوں میں کامیابیاں حاصل کر سکتی ہیں۔’’ ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بحیثیت پاکستانی اور مسلمان ہونے کے اگر میں سات براعظموں کے پہاڑ سر کر سکتی ہوں تو دیگر خواتین ایسا کیوں نہیں کر سکتیں۔ جس طرح مجھے میرے خاندان اور میرے بھائی نے سپورٹ کیا ہے اور مواقع دیے ہیں اسی طرح دوسری خواتین کو بھی دیے جائیں تو وہ بھی زندگی میں کامیابیوں کے ایسے پہاڑ سر کر سکتی ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ ثمینہ بیگ نے پاکستان کے لیے یہ تاریخی کامیابی صرف 23 برس کی عمر میں حاصل کی ہے۔ اس سے قبل ثمینہ نے 19 مئی2013ء کو دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ سر کی تھی۔ اس طرح وہ 8848 میٹر بلند اس چوٹی پر پہنچنے والی پہلی پاکستانی خاتون اور تیسری پاکستانی شہری تھیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے رواں برس تین جولائی کو الاسکا میں 6168 میٹر بلند چوٹی، مکش کنلے کو بھی فتح کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے اس چوٹی کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مارچ میں ان دونوں نے انڈونیشیا کی 4884 میٹر بلند چوٹی، کارسٹینسز پیرامڈ اور دسمبر میں ارجنٹائن کی بلند ترین چوٹی آکونکا گووا کو بھی سر کیا۔
ثمینہ کے ساتھ یہ چوٹیاں سر کرنے والے ان کے بھائی مرزا علی کے مطابق کوہ پیمائی کے اس طرح کے ایڈونچرز کی بدولت ملک میں سیاحت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ ’’پاکستان میں حالیہ دو تین سال میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ ہم جو کام کر رہے ہیں، یعنی پہاڑوں پر جب چڑھتے ہیں تو میں اس کی فلم بناتا ہوں، ڈاکومینٹریز بھی بناتا ہوں۔ ان دستاویزی فلموں کو عالمی سطح پر پیش کرنے سے پاکستان میں سیاحت کا فروغ ہوا ہے۔ اب ہمارے نوجوان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک سے بھی ہمارے پاس لوگ آرہے ہیں اور سیاحت فروغ پا رہی ہے۔‘‘
اس کارنامے کے بعد کوہ پیما بھائی بہن کی یہ جوڑی جمعرات31 جولائی کو وطن واپس پہنچی ہے۔ مستقبل کے ارادوں کا ذکر کرتے ہوئے مرزا علی نے اپنے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ وہ اور ثمینہ چاہتے ہیں کہ ملک میں سرمائی کھیلوں یا ’ ونٹر گیمز‘ کی تربیت اور انہیں فروغ دینے کے لیے ایک ادارہ قائم کریں۔ ’’ہم پاکستان میں ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتے ہیں، جس کے ذریعے ہم winter sports، کے لیے کھلاڑی پیدا کر سکیں اورwinter Olympics کے لیے کھلاڑی تیار کر سکیں۔ کیونکہ ان مقابلوں میں پاکستان کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ کھیلوں کے حوالے سے پاکستان میں نوجوانوں خصوصاً خواتین کے لیے کام کریں اور ملک میں سیاحت، کھیل اور آؤٹ ڈور تعلیم کو ترقی دیں۔‘‘