نورالدین توپ کو ہلاک کر دیا گیا: انڈونیشی پولیس
17 ستمبر 2009نورالدین توپ پر انڈونیشیا کی تاریخ کے بدترین بالی بم دھماکوں اور رواں برس جولائی میں دارالحکومت جکارتہ میں دو ہوٹلوں میں خودکش بم دھماکوں کی منصوبہ بندی سمیت سنگین نوعیت کے کئی الزامات عائد تھے۔
نورالدین توپ کی ہلاکت کا دعویٰ اس سے قبل بھی کیا گیا تھا لیکن بعد میں ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ سے پتہ چلا تھا کہ پولیس اور خفیہ اداروں کی کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے کارروائی میں مرنے والے دہشت گردوں میں نورالدین توپ شامل نہیں تھا۔ تاہم اس بار پولیس کو پورا یقین ہے کہ وہ نورالدین توپ کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مرکزی جاوا میں ایک مشتبہ ٹھکانے پر پولیس کی بھاری نفری نے چھاپہ مارا۔ ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے قوی امکانات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ نورالدین توپ اس آپریشن میں ہلاک کر دئے گئے ہیں۔ اس کارروائی میں شریک ایک پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے اپنی بات چیت میں کہا کہ انہیں نوے فیصد یقین ہے کہ نورالدین توپ کوہلاک کر دیا گیا ہے۔
دریں اثناء ملکی پولیس کے سربراہ نے آج جمعرات کو ایک نیوزکانفرنس میں تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انگلیوں کے نشانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نورالدین ہلاک شدگان میں شامل ہیں۔ اس کارروائی میں دیگر چار مشتبہ دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے جبکہ آپریشن کے دوران مکان میں موجود ایک حاملہ خاتون شدید زخمی ہو گئی۔
ملائشیا میں پیدا ہونے والے نورالدین توپ عسکریت پسند مسلمانوں کی تنظیم جماعتہ اسلامیہ کے اہم ترین رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ جماعتہ اسلامیہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس تنظیم کے القاعدہ سے گہرے روابط ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کے خیال میں نورالدین توپ جماعتہ اسلامیہ سے الگ ہوگئے تھے اور اپنا ایک علیٰحدہ گروپ "تنظیم قیادت الجہاد" چلا رہے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ توپ جماعتہ اسلامیہ سے اس لئے علیٰحدہ ہو گئے تھے کہ یہ تنظیم دہشت گردانہ حملوں میں عام شہریوں کے قتل کے خلاف تھی جبکہ توپ ایسی ہلاکتوں کو جائز سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے سخت ترین موقف کے حامل ایک نئے گروپ کی بنیاد ڈالی۔
نورالدین توپ پر سن 2003 میں جکارتہ کے میریٹ ہوٹل، 2004 میں آسٹریلین سفارت خانے، 2005 میں بالی اور رواں برس رٹزکارلٹن اور میریٹ ہوٹلوں پرخونریز بم حملوں کی منصوبہ بندی کے الزامات عائد ہیں۔ انڈونیشیا کی حکومت نے توپ کے سر کی قیمت تقریبا ایک لاکھ امریکی ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: گوہر گیلانی