نيٹو قذافی مخالف باغيوں کی کس حد تک مدد کرے گا؟
29 مارچ 2011نيٹو کے ليبيا مشن کے کمانڈر ليفٹينيٹ جنرل چارلس بوُخارڈ نے نيپلز ميں نيٹو کے آپريشنز ہيڈ کوارٹر ميں ايک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ليبيا ميں نيٹو مشن کا مقصد اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اِس ملک کو اسلحے کی فراہمی روکنا اور ليبيا پر نو فلائی زون قائم کرنا ہے۔ ہم خطرے کی زد ميں آئے ہوئے شہريوں اور بستيوں کی مدد کرنا چاہتے ہيں۔‘‘
تاہم جنرل بُوخارڈ نے يہ نہيں کہا کہ نيٹو ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کس حد تک جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے صحافيوں کے اس سوال کا جواب بھی نہيں ديا کہ کيا نيٹو کی طرف سے قذافی کی فوج پر حملے جاری رہیں گے یا نہيں۔ تاہم نيٹو کے ہيڈ کوارٹر ميں ايک اعلٰی سفارتکار نے کہا کہ نيٹو فضائی حملے جاری رکھے گا، خواہ اُن کا تعلق نو فلائی زون قائم کرنے سے نہ بھی ہو۔ اس نے کہا کہ نيٹو اتحاد شہريوں کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے قذافی کی فوج پر آئندہ بھی حملے ہوتے رہيں گے۔ اس پر نيٹوکے 28 رکن ملکوں ميں اتوار کی شام کو اتفاق ہو چکا ہے۔
اگرچہ ابھی تک فرانس، برطانيہ اور امريکہ ہی کےطيارے ليبيا پر حملے کر رہے ہيں ليکن اگلے دنوں کے اندر کمان نيٹو کے سپرد کر دی جائے گی۔ اس کے بعد فرانس يا برطانيہ کی خصوصی کارروائياں ختم کر دی جائيں گی۔ ليکن نيٹو کی ترجمان اوآنا لنگیسکو نے يہ نہيں بتايا کہ نيٹو کی کارروائی کب تک جاری رہے گی:
’’ ميرے خيال ميں سب ہی اس کارروائی کو، جہاں تک ہو سکے، مختصر رکھنا چاہتے ہيں اور سب ہی يہ بھی جانتے ہيں کہ اس تنازعے کا کوئی خالص فوجی حل نہيں ہے۔ ہميں اميد ہے کہ کوئی پر امن حل نکل سکے گا، جس کا مطلب جمہوريت ہے، جو ليبيا کے عوام چاہتے ہيں۔‘‘
ليبيا کے سياسی حل پر غور کے لئے آج لندن ميں ايک کانفرنس ہو رہی ہے، جس ميں 35 سے زائد ممالک کے وزرائے خارجہ اور نيٹو کے سيکرٹری جنرل راسموسن شرکت کر رہے ہيں۔ ان ميں نيٹو کے رکن ملک جرمنی کے وزير خارجہ ويسٹر ويلے بھی شامل ہيں۔
نيٹو نے اعلان کيا ہے کہ لیبیا کے خلاف کارروائی ميں ہر رکن ملک شرکت کر سکتا ہے۔ کل پہلی بار بيلجيئم کے جيٹ طياروں نے ليبيا پر فضائی حملوں ميں حصہ ليا۔ ہالينڈ بھی ان ميں حصہ لينا چاہتا ہے ليکن اُس کی شرط يہ ہے کہ اُس کے ايف 16لڑاکا جيٹ صرف نو فلائی زون کی نگرانی کے لئے استعمال کئے جائيں گے اور وہ زمينی اہداف پر کسی بھی حملے ميں شرکت نہيں کريں گے۔ عرب ملکوں ميں سے صرف قطر اور متحدہ عرب امارات کے فوجی اس کارروائی ميں حصہ لے رہے ہيں۔
رپورٹ: کرسٹوف پريوسل/ شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی