نہ ہوتا میں، تو کیا ہوتا؟
16 جنوری 2022زریں بھی تین بھائیوں کی اکلوتی اور سب سے چھوٹی بہن تھی۔ گھر میں سب کی لاڈلی ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں بھی اچھی تھی۔ اسکول سے ہی تقریری مقابلوں سے سالانہ فنکشن تک ہر جگہ پیش پیش رہتی اور ہمیشہ داد وصول کرتی۔ نماز روزے کی بھی پابند تھی اور قرآن پاک کو تفسیر کے ساتھ پڑھ کر خوب سمجھتی تھی کہ آخرکار انسان کی طاقت اور سوچ دونوں ہی بہت محدود ہیں اور اصل کارساز صرف ایک ہی ہے۔ اچھی طرح جانتی تھی کہ تقریباً ہر عقیدے میں ہی آزمائش کے بارے میں بتایا گیا اور جان، مال اور اولاد سے آزمانے کے بارے میں تو شاید وہ پورا مضمون لکھ سکتی تھی۔
والدين اور بھائی اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ اس نے ایک مقبول اور معیاری یونیورسٹی سے اعلىٰ تعلیم حاصل کی اور اسکالر شپ بھی لیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی پسند کی نوکری کی اور پھر دھوم دھام سے شادی ہوئی اور وہ بیرون ملک 'پیا دیس‘ سدھارگئی۔ قسمت مہربان تھی کہ شوہر بھی بالکل طبیعت کے مطابق ملا نہ کبھی روک ٹوک کی اور نہ ہی کبھی آگے بڑھنے سے روکا۔ سسرال کی طرف سے بھی کبھی کوئی تنگی پیش نہ آئی۔
زریں اپنی سوچ کے مطابق بہت آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کرتی چلی گئی اور اسی دوران اللہ نے اسے ایک بیٹے سے نوازا، اس کو لگا اس کی زندگی مکمل ہوگئی ہے اور اب وہ صرف اپنا کریئر بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ مگر قسمت نے کچھ ایسی کایا پلٹی کہ بیٹا ابھی سال کا ہی ہوا تو اسے اپنے بیٹے اور باقی بچوں میں واضح فرق نظر آنے لگا۔ جسے خاندان میں سب نے ہی صرف اس کا وہم قرار دیا۔ وہ جسمانی طور پر تو بالکل تندرست تھا مگر ذہنی طور پر نہ تووه باقی بچوں کی طرح مل کر کھیلتا تھا اور نہ ہی ماں باپ سے کچھ مانگتا یا بتاتا تھا۔ ڈاکٹر کو دکھایا تو مختلف ٹیسٹ کروانے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور ماں باپ ساری دنیا بھول کر صرف ڈاکٹروں اور ہسپتال کے چگر لگاتے رہے۔ آخرکار ایک دن پوری دنیا پلٹ گئی اور پتہ چلا کہ ان کے بیٹے کو آٹزم ہے۔ جو ایک ایسی کنڈیشن ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ مسلسل تھراپی کروانے سے شاید کبھی یہ بول سکے اور کچھ حد تک عام زندگی بھی گزار سکے اور ممکن ہے ایسا کبھی نہ ہو پائے۔
زریں کو ایسا لگا جیسے ساری ذہانت، ساری قابلیت، ڈگریاں اور لائف اسٹائل، سب کچھ اس کی ہتھیلی سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی۔
ساری دنیا تو ویسے ہی چل رہی تھی، قیامت تو نہیں آئی تھی، تو اسے ایسا کیوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید اس مقام پر اس کی دنیا ختم ہوگئی ہے اور اس سے آگے اب کچھ بھی زندگی میں نہیں بچا۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں اسے بہت وقت لگ گیا۔ اسے ایسا لگتا کہ شاید اس کی زندگی میں ایک آفت آگئی ہے اور باقی ساری دنیا پرسکون زندگی گزار رہی ہے۔ اسے بہت سے لوگوں پر بھی شدید غصہ تھا کیونکہ اس آزمائش آنے کے بعد وہ لوگ جو ایک کانٹا چھبنے پر خود تو تلملا اٹھتے ہیں، آج اسے عالم دین بنے یہ لیکچر دیتے نہیں تھکتےکہ وہ تو خوش قسمت ہے کہ اللہ نے اسے اس امتحان کے لیے چنا ہے اور صبر کرکے وہ کیسے دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ یہ سب اسے خود بھی بخوبی معلوم تھا مگر یہ لیکچر اس وقت اس کی مدد نہیں کر رہے تھے۔ اسی طرح اسے لگتا تھا کہ شاید خاندان، سسرال، دوست احباب سب کو اس کی مشکل سمجھنی چاہیے اور آسان بنانے میں مدد بھی کرنی چاہیے۔ مگر درحقیقت سب اپنی زندگیوں میں مگن تھے، اگر ہمدردی رکھتے بھی تھے تو زیادہ وقت دینا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ وہ یہی معمہ حل کرتی رہی ہے کہ یہ سب صرف اس کے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے؟
وقت کے ساتھ ساتھ اسے سمجھ آنے لگی کہ اپنے بیٹے کی زندگی میں بہتری اور آسانی لانے کے لیے جو کردار وہ بحیثیت ماں ادا کر سکتی ہے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ رفتہ رفتہ اس کا ملنا جلنا خصوصی والدین سے بڑھا، اس پر دوسروں کی زندگی کی مشکلات بھی عیاں ہوتی چلی گئیں اور اسے مجرمانہ سا احساس ہوا کہ شاید اب بھی اس کی زندگی تو لاکھوں کروڑوں لوگ سے بہت آسان ہے۔ بہت سے لوگ ایسی ایسی ذہنی جسمانی اور مالی پریشانیوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جن کا وہ شاید تصور بھی نہیں کر سکتی۔
اسے اکثر یاد آتا کہ بچپن سے اس نے کتنے ہی لوگوں کو آزمائش میں دیکھا تھا۔ جب اس کی ایک کزن کے شوہر کا جوانی میں انتقال ہو گیا تھا، جب اس کی امی کی سہیلی کی بیٹی کو ڈآؤن سنڈروم کا پتہ چلا تھا، جب اس کے والد کے دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور وہ اپاہج ہو گئے تھے، جب کسی جاننے والے کے گھر اولاد نہیں ہوئی تھی، جب کسی کے نومولود بیٹے میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور جب کسی کی مالی حالت ایسی بگڑی کہ زندگی کی بنیادی ضروریات بھی اس پر مشکل ہوگئی تھیں۔
یہ سب دیکھنے کے باوجود بھی اس نے ایسا کبھی کیوں نہیں سوچا کہ اس پر بھی کوئی آزمائش آسکتی ہے؟ کبھی کسی بڑے نے یہ کیوں نہیں سکھایا کہ خالق سے اچھا گمان ضرور کرو مگر زندگی کی حقیقت سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہ کرو۔ جس طرح وہ اسے ہر امتحان میں کامیاب ہونا سکھاتے تھے اور ہر جیت پر حوصلہ افزائی کرتے تھے وہیں کسی ہار یا مشکل سے مقابلہ کرنا کیوں نہیں سکھایا؟
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کو صرف جیتنا اور آگے بڑھنا ہی سکھاتے ہیں۔ فیل ہونا یا ہار جانا تو کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے اور سب کے دماغ میں زندگی جیت کا مترادف بن کے رہ جاتی ہے اور مشکل پڑنے پر زریں کی طرح ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
زریں کی زندگی اس دن آسان ہوگئی جب اس پر یہ عقده کھلا کہ وہ تو شاید غلط ستاروں پر کمند ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اپنی محدود سوچ کے مطابق جو خوشی اور آسودگی اپنا من پسند کرئیر بنانے سے مل سکتی تھی اس سے بڑھ کر اپنے بیٹے کی زند گی بہتر بنانےسے بھی مل رہی ہے۔ اگر مزید پیسہ کما بھی لیتی تو اپنی قسمت سے زیادہ رزق نہیں سمیٹ سکتی تھی۔ خوب سے خوب تر زندگی کی تو کوئی حد نہیں ہے جس سے انسان مطمئن ہو سکے۔ کسی انسان سے کوئی بھی امید رکھنا صرف بے وقوفی ہے کیونکہ انسان کی اتنی حیثیت ہی نہیں کہ وہ رب کے معاملات میں عمل دخل کر سکے۔ اور تبھی سمجھ آیا کہ غالب نے کیوں کہا تھا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
حقیقت یہی ہے کہ کسی کے پاس بھی تمام کنجیاں اور تمام جوابات نہیں ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی جنگ لڑ رہا ہے ان پریشانیوں کے ساتھ جو ہمیں نظر آتی ہیں اور ان کے ساتھ بھی جو صرف وہ یا اس کا خدا جانتا ہے۔
اس لیے بہت ضروری ہے کہ کسی کو آزمائش میں دیکھیں تو آنکھیں بند نہ کریں کہ شاید ہمارے ساتھ تو ایسا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ جس بات کا علم نہیں رکھتے اس کے بارے میں ماہر نہ بنیں اور نہ ہی عالم دین بن کر دوسرے کے ایمان کی پختگی اور کمزوری کا فیصلہ سنائیں۔ اتنا احساس ضرور بیدار کریں کہ اپنی سوچ وسیع کر سکیں اور اپنے بنائے ہوئے منصوبوں سے بڑھ آزمائش کا سامنا کر سکیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔