’نہیں زرداری کا یہ مطلب نہیں تھا‘، پیپلز پارٹی کی وضاحتیں
18 جون 2015ایک جانب پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری کا دفاع کرتے نظر آئے تو دوسری طرف حکومتی ارکان اور ان کی اتحادی جماعتوں کے رہنما فوج پر تنقید کو ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ جمعرات کو پاکستان پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری نے فوج پر تنقید نہیں کی بلکہ انہوں نے تمام اداروں کے اپنے مینڈیٹ میں رہ کر کام کرنے کی بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین نے سابق صدر کے بیان کو غلط انداز میں پیش کر کے پارٹی کے خلاف طوفان برپا کرنے کی کوشش کی ہے۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ’’پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی صورت حال اچھی نہیں ہے جس کا ہمیں ادراک ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ہماری کسی بات سے فوج کے لیے کوئی مشکل پیدا ہو۔ صدر زرداری نے اپنی تقریر میں فوج کو ملک کا ایک اہم ادارہ قرار دیا تھا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل میڈیا کے ایک ادارے اور فوج کے مابین ہونے والی کشیدگی میں کسی بھی حکومتی عہدیدار نے فوج کا ساتھ نہیں دیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی اس وقت اپنے ملک کے دفاعی ادارے کے ساتھ کھڑی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم کی جانب سے پاکستان کے خلاف کی جانے والی ہرزہ سرائی کے خلاف بھی سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے ہی آواز اٹھائی تھی۔
خیال رہے کہ آصف زرداری نے منگل کو اسلام آباد میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے کارکنوں سے خطاب میں کہا تھا کہ اگر اُنہیں دیوار سے لگانے اور ان کی کردار کشی بند نہ کی گئی تو وہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کے جرنیلوں کے بارے میں وہ کچھ بتائیں گے کہ وہ وضاحتیں دیتے پھریں گے۔
آصف زرداری کے اس بیان کے بعد پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بدھ کو ان سے طے شدہ ملاقات یہ کہہ کر منسوخ کر دی تھی کہ ایک ایسے وقت میں جب ملکی فوج شدت پسندوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے ایسا بیان مناسب نہیں۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری کا یہ بیان کراچی میں رینجرز کی طرف سے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپے اور سرکاری زمینوں کا ریکارڈ قبضے میں لینے کے بعد سامنے آیا تھا۔ ذرائع کے مطابق فوجی افسران پر مشتمل ’’ایپکس کمیٹی‘‘ کے گزشتہ اجلاس میں ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی پر بھی کراچی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس پر سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔ بدھ کے روز سندھ کے وزیر اعلی قائم علی شاہ نے بھی کہا تھا کہ رینجرز اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ ان کی جماعت کے اندر بھی بعض سینئیر اراکین نے آصف زرداری کے فوج سے متعلق بیان کو ’’ضرورت سے زیادہ رد عمل‘‘ قرار دیا تھا۔ ان رہنماؤں کے خیال میں اس موقع پر فوج کے ساتھ کسی بھی قسم کی کشیدگی پیپلز پارٹی کے لیے سنجیدہ مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں کراچی میں جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف آپریشن کے بعد سے ہی رینجرز اور پیپلز پارٹی میں تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے اور پیپلز پارٹی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ رینجرز کو کراچی آپریشن کے لیے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اس کا کھلا ثبوت کور کمانڈر کراچی لفٹیننٹ جنرل نوید مختار کے بیانات ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مبشر زید ی کا کہنا ہے کہ سیاست میں مفاہمانہ رویہ اپنائے رکھنے کے لیے مشہور آصف زرداری نے ایک ایسے وقت پر فوج کے ساتھ کشیدگی مول لی ہے جب ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری حال ہی میں لندن سے واپس آ کر پارٹی کی باگ دوڑ سنبھال رہے ہیں۔ مبشر زیدی نے کہا کہ ’’اب سیاسیت میں نوآموز بلاول کا پہلا امتحان ہی کڑا ہے کہ کس طرح وہ فوج کے ساتھ کشیدگی کو کم کرتے ہوئے سندھ حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک سیاسی طور پر غیر مقبول ہوتی اپنی جماعت کی تنظیم نو کرتے ہیں ؟ اور انہیں چیلنج کے ساتھ ساتھ یہ آسانی بھی میسر ہے کہ ایک نوجوان کے طور پر وہ ایسے فیصلے لے سکتے ہیں جو شاید سیاسی وابستگیوں کے سبب ان کے والد کے لیے لینے آسان نہیں تھے‘‘۔
آصف زرداری کے بیان پر حکومتی عہدیداروں خاص طور پر وزیر اعظم نواز شریف کے رد عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے مبشر زیدی نے کہا کہ’’اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں سیاست پر فوج کا اثرورسوخ اب بھی کتنا گہرا ہے‘‘۔