نیا جاسوسی تنازعہ، جرمنی اور امریکا کے درمیان تعلقات کشیدہ
3 جولائی 2015جرمن میڈیا پر سامنے آنے والی رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ امریکا کی قومی سلامتی ایجنسی این ایس اے نے چانسلر میرکل کے ساتھ ساتھ اہم حکومتی عہدیداروں بشمول وزراء برائے اقتصادیات اور خزانہ کی جاسوسی کی۔ این ایس اے کے سابقہ کانٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشاء کی گئی خفیہ معلومات کے بعد ان دونوں قریبی دوست ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا تھا، تاہم اب ان نئی اطلاعات سے اس میں مزید کشیدگی آئی ہے۔
نازی دور میں گیسٹاپو اور کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں شٹازی خفیہ پولیس کی جانب سے شہریوں کی نگرانی کی وجہ سے جرمنی میں پرائیوسی ایک انتہائی سنجیدہ اور حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔
میرکل کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’تواتر سے سامنے آنے والی ایسی اطلاعات سے جرمن اور امریکی انٹیلیجنس تعاون میں تناؤ پیدا ہو رہا ہے، کیوں کہ یہ ہمارے شہریوں کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔‘
اس سے قبل غیرعمومی طور پر میرکل کے چیف آف اسٹاف پیٹر الٹمائر نے برلن میں تعینات امریکی سفیر کو بلا کر اس سلسلے میں ان سے وضاحت طلب کی۔ زائبرٹ کے مطابق الٹمائر نے امریکی سفیر پر واضح کیا کہ جرمن قانون کا ہرصورت میں احترام کیا جائے اور اس قانون کو توڑنے والے کو سزا دی جائے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے، تاہم اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کیا ہے۔ محمکہ خارجہ نے ان رپورٹوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر منفی اثرات پڑنے کی بھی تردید کی ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کِربی کے مطابق، ’میں بس آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ جرمنی کے ساتھ ہمارے انتہائی مضبوط تعلقات ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے۔‘
واضح رہے کہ جرمن اخبار زوڈ ڈوئچے سائٹنگ اور نشریاتی ادارے اے آر ڈی نے بتایا تھا کہ امریکی ایجنسی این ایس اے نے 69 ٹیلی فون اور فیکس نمبروں کی نگرانی کی، جو اعلیٰ جرمن حکومتی عہیداروں کے استعمال میں تھے۔ ان رپورٹوں کا ماخذ وِکی لیکس ویب سائٹ پر جاری کردہ خفیہ امریکی دستاویزات تھا۔
رپورٹوں کے مطابق امریکی ادارے نے وزیر اقتصادیات کے ساتھ ساتھ متعدد نائب وزراء کی بھی جاسوسی کی۔
جرمن نائب چانسلر اور وزیر اقتصادیات زِیگمار گابریئل کے مطابق انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ ممکنہ طور پر یہ معاملہ خفیہ صنعتی معلومات چرانے اور خصوصاﹰ ان کی وزارت اور مختلف کمپنیوں کے درمیان رابطوں سے متعلق معلومات کی جاسوسی پر جا پہنچتا ہے۔
جرمن وزیر داخلہ ٹوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ جرمنی اس معاملے کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور اس سے ’ بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔‘