نیا سال کیا لائے گا ؟
بہت سے اشارے ایسے ہیں، جن کے مطابق ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے لیکن خطرات کی بھی کمی نہیں۔ بہت سی چیزیں معیشت سے جڑی ہوئی ہیں۔ جانیے جرمنی کے لیے سال دو ہزار سولہ کیسا رہے گا؟
کمزور یورو
امریکی ڈالر کے مقابلے میں کمزور یورو یورپی برآمدکنندگان کو خوش کرتا ہے کیوں کہ مصنوعات عالمی مارکیٹ میں سستی ہو جاتی ہیں۔ یورپی مرکزی بینک نے مارکیٹ میں زیادہ پیسہ پھینکا ہے، جس کی وجہ سے یورپی معیشت کی ترقی کی امید کی جا سکتی ہے۔
خریداری کا مزہ
اصل میں خریداری کا مزہ اس وقت آتا ہے، جب مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یا مہنگائی نہ ہو۔ افراط زر کی کم شرح کی وجہ سے صارفین زیادہ پیسہ خرچ کریں گے۔
کم شرح سود
اس کے باوجود کہ امریکا کے مرکزی بینک نے دسمبر میں شرح سود میں اضافے کا اعلان کر دیا تھا، یورپی مرکزی بینک نے شرح سود نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لوگوں کی نظر میں پیسہ جمع کرنے کا فی الحال کوئی فائدہ نہیں، جس وجہ سے زیادہ خریداری کی جاری ہے۔
نئے گھروں کی تعمیر
گھروں کی تعمیر کے لیے قرضے اتنے سستے کبھی نہیں رہے، جتنے کہ اب ہیں۔ گھروں کے کرایوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ ذاتی گھروں کی تعمیر چاہتے ہیں۔ رواں برس اس سلسلے میں مزید اضافہ ہوگا۔
سیاہ سونے کی کم قیمت
جرمنی تیل برآمد کرتا ہے اور یہی وجہ کہ اس کی کم قیمتوں سے اسے فائدہ پہنچتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تیل کی پیداوار میں مزید اضافہ ہوگا، جس کے باعث اس کی قیمتیں کم ہی رہیں گی۔
بے روزگاری
جرمنی میں تقریباﹰ چھبیس لاکھ افراد بے روزگار ہیں اور یہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت کم سطح ہے۔ جو کام کرتا ہے، وہ حکومت پر بوجھ بننے کی بجائے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ اس پر معیشت تو خوش ہے لیکن مہاجرین کی وجہ سے اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
اور اب خطرات: کمزور یورو
یورو کے کمزور ہونے سے برآمدات کو تو تقویت ملے گی لیکن درآمدات مہنگی ہو جائیں گی۔ خام تیل کا کاروبار بھی امریکی ڈالر میں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جرمن کمپنیوں کو زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ تجارتی ادارے اس سے پریشان بھی ہیں۔
برطانیہ اور یورپی یونین
فی الحال تو برطانیہ یورپی یونین کا حصہ ہے لیکن اگر وہ یورپی یونین کا ساتھ چھوڑ گیا تو پھر؟ تجزیہ کاروں کا مطابق یورپ کا مستقبل اسی سوال سے جڑا ہوا ہے۔ یورپی یونین کا حصہ رہنے یا نہ رہنے سے متعلق برطانیہ میں 2017ء تک ریفرنڈم ہوگا۔
حملوں کا خوف
پیرس حملوں کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ رواں برس بھی یورپ میں ایسے حملوں کو خوف طاری رہے گا۔ شامی جنگ میں جرمنی کی شمولیت کے بعد سے اس خوف میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور کوئی بھی ممکنہ حملہ معیشت پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
مہاجرین
صرف ایک برس میں تقریباﹰ دس لاکھ مہاجرین جرمنی پہنچے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جرمنی ان مہاجرین سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ روزگاری کی منڈی کے لے فائدہ مند ثابت ہوں کے یا نقصان دہ۔