نیا عدالتی فیصلہ، ڈاکٹر قدیر پھر حفاظتی حصار میں
2 ستمبر 2009اس فیصلے کے بعد ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر عبدالقدیر آزادانہ نقل و حرکت نہیں کر سکیں گے اور وہ اب حفاظتی اداروں کی ترجیحات کے مطابق ہی گھوم پھر سکیں گے۔
یاد رہے، چند رو زپہلے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز احمد چوہدری نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی ایک درخواست پر ان کو ملنے والے حفاظتی پروٹوکول پر عمل در آمد روک دیا تھا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکیل علی ظفر نے عدالت ِ عالیہ کو بتایا تھا کہ حفاظتی پروٹوکول کے نام پر حکومت طرف سے ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل و حرکت پر بے جا پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ بدھ کے روزلاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست کے ذریعے، وفاقی حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عبدالقدیر کے حفاظتی پروٹوکول ختم کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسی سال فروری کے مہینے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ایک آزاد انسان ہیں اور ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں نہیں لگائی جا سکتیں۔ اس موقعے پر حکومت کی طرف سے ڈاکٹر قدیر کو ان کی اہمیت کے پیش نظر حفاظتی سیکیورٹی فراہم کرنے کی پیش کش کی گئی تھی۔ اس حفاظتی پروٹوکول کا مقصد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اہم شخصیات کی طرح حفاظتی سیکورٹی فراہم کرنا بیان کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکیل علی ظفر کے مطابق بعد ازاں حکومت نے حفاظتی پروٹوکول کے نام پر ڈاکٹر قدیرخان کی نقل و حرکت پر بے جا پابندیا ں عائد کردیں۔ اس پر ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ رجو ع کیا گیا، جہاں پر چند دن پہلے عدالتِ عالیہ کے سنگل بنچ نے ڈاکٹر قدیر کی نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے احکامات جار ی کر دئیے اور اس کے مرتکب افراد کو تو ہین عدالت کے نوٹس بھی جار ی کر دئیے۔
اس پر وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں سنگل بنچ کے مذکورہ فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے بدھ کے روز لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ڈاکٹر قدیر پر عائد حفاظتی پروٹوکول کی پابندیاں بحال کر دیں۔ ہائی کورٹ کا دو رکنی بنچ مسٹر جسٹس ثاقب نثار اور مسٹر جسٹس خالد علوی پر مشتمل تھا۔
وفاقی حکومت کے وکیل عامر رحمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں سن سکتی۔ ان کے مطابق کئی فنی پہلوؤں کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالقدیر کا عدالت عالیہ سے رجو ع کرنا قانونی لحاظ سے جائز نہیں تھا۔ ادھر ڈاکٹر قدیر کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ختم ہوجانے کے بعد یہ درخواست لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ میں دائر کی گئی اب چونکہ راولپنڈی بنچ میں کوئی جج دستیاب نہیں تھے اس لئے اس درخواست کو لاہور ہائی کورٹ کے لاہور بنچ میں سنا گیا۔
علی ظفر نے زور دے کر کہا کہ بدھ کو جاری ہونے والے لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کے احکامات سے لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے احکامات تو معطل ہو گئے ہیں، لیکن یہ احکامات اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو ں گے، جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل و حرکت پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اگر اب بھی حکومت نے ڈاکٹر قدیر کی نقل وحرکت پر پابندیاں عائد کی تو ایسا اقدام عدالت کی توہین کے مترادف ہو گا۔ اب اس کیس کی سماعت پندرہ ستمبر کو ہو گی۔
یاد رہے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ڈاکٹر قدیر پر حفاظتی پابندیاں ختم کر دئیے جانے کے فیصلے پر امریکی حکومت نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اب بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے سنگین خطرہ ہے۔
رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور
ادارت : عاطف توقیر