’نیا پاکستان‘ اور دم توڑتی اُمیدیں!
4 جنوری 2019اُمیدیں تب ہی پنپتی ہیں، جب کوئی نہ کوئی کرن پھوٹتی نظر آ رہی ہو، جب اس کا خوب چرچا ہو یا چرچا کیا جائے کہ امید رکھیے روشنی ہو گی، اُجالا ہو گا اور دکھوں کا مداوا بھی کیا جائے گیا۔
اب کی بار تو یقین تھا کہ ’تبدیلی بڑے پیمانے‘ پر ہو گی۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ’تبدیلی‘ بائیس سال کی مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ الغرض طویل فوجی اور دو سِول حکومتوں کے بعد یہ ’تبدیلی‘ آئی۔ نئی حکومت کو آئے ایک سو ستائیس دن سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس عرصے میں نئی حکومت نے ’پرانے عوام‘ کو ایک سو روز میں کارکردگی دکھانے کے، جو وعدے کیے تھے، ان میں مختلف اداروں اور ان کے ذیلی محکموں کا نظام درست کرنے سمیت عوام دوست حکومت قائم کرنا بھی شامل تھا۔ حکمران جماعت کی جانب سے اس وعدے کی تکمیل کے لیے فوری طور پر تو اقدامات بھی کیے جانے لگے اور یوں دیکھا جائے تو ایک سو دنوں کی بجائے ایک سو اٹھائیس دن گزر گئے لیکن کچھ خاص نہیں بدلا۔ پچاس لاکھ گھر؟ پینے کا صاف پانی؟کلین گرین پاکستان؟ سستی بجلی اور روزگار کے لاکھوں مواقع کہاں ہیں؟
کچھ تبدیل ہوتا نظر بھی آنے لگا۔ نئی حکومت نے آتے ہی سب سے پہلے غیر ضروری اخراجات کم کر کے بیرونی دنیا سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اقدامات اٹھانا شروع کیے لیکن ساتھ ہی بہت سے اور مسائل بھی کھڑے کر دیے، لاکھوں نوکریوں کے وعدے پر ہزاروں لوگ بے روزگار کر دیےگئے۔ ملک بھر میں تجاوزات کے خلاف ایکشن نے کئی گھروں کے چولہے بجھا دیے، صرف شہر کراچی سے سولہ ہزار دکانیں مسمار کر دی گئیں، متاثر ہونے والا ہر ایک شخص وزیراعظم کی جانب دیکھ رہا ہے مگر کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام نے ’تبدیلی‘ کو مہنگی پٹرولیم مصنوعات، اپنی دکانوں کے مسمار ہونے اور بے روزگاری سے بالکل تعبیر نہیں کیا تھا۔
پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے پورے پاکستان کو متاثر کیا ہے۔ چار ماہ کے دوران اس کی قیمت میں تین بار اضافہ عوام کے لیے ناقابل یقین تھا، اسی وجہ سے ملک کے چھوٹے بڑے تاجر بھی متاثر ہوئے ہیں۔
اقتصادی شرح نمو کے ہدف کی جانب نگاہ ڈالی جائے تو وہاں بھی ’تبدیلی‘ آتی جا رہی ہے مگر یہ ’منفی تبدیلی‘ ہے۔ عوام کی اُمیدوں کے ساتھ ساتھ اسٹاک ایکسچینج نے بھی ’کریش لینڈنگ‘ کی ہے اور دوسری جانب عمران خان کے غیر عمومی بیانات نے بھی عوام کو الگ پریشان کر رکھا ہے۔
تحریک پاکستان کے حامی آج بھی یہی کہتے ہیں کہ بس یہ یاد رکھیں کہ کن حالات میں تحریک انصاف کو حکومت ملی؟ خالی خزانہ، ابتر معاشی صورتحال، ناکام خارجہ پالیسی، ہر طرف بدعنوانیوں اور کرپشن کا راج، سیاسی طور پر آلودہ پولیس، افسر شاہی، دم توڑتی ہوئی مقامی صنعت، نہ ہونے کے برابر بیرونی سرمایہ کاری اور تباہ حال ادارے لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کوشیش کر تو رہے ہیں۔
لیکن میرے خیال میں اُن کی جیب ’کھوٹے سکوں‘ سے بھری ہوئی ہے، جن سے کسی ٹھوس معاشی منصوبہ بندی اور مضبوط لیڈر شپ کی توقع کرنا ہی شاید ایک غلطی تھی۔ جناب اسد عمر جیسے ’ماہر معاشیات‘ کو حکومت میں آنے کے بعد پتا چلا کہ پٹرول سستا کیوں نہیں ہو سکتا اور آئی ایم ایف سے قرض لینا کیوں ضروری ہے؟ یہی نہیں ایسے ہی کئی دیگر وزراء بھی ہیں، جن کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات اٹھتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔