نیتن یاہو کی بطور اسرائیلی وزیر اعظم واپسی کیسے ممکن ہوئی؟
4 نومبر 2022بینجمن نیتن یاہو پھر سے میدان میں آ گئے ہیں۔ ابتدائی نتائج کے مطابق منگل کے روز اسرائیل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دائیں بازو کے مذہبی بلاک پر مبنی جماعتوں کے اتحاد نے اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ کی 120 میں سے 65 نشستیں حاصل کیں۔
سابق وزیر اعظم اور موجودہ اپوزیشن لیڈر کی لیکوڈ پارٹی یکم نومبر کے انتخابات میں تقریباﹰ 31 نشستوں کے ساتھ سب سے مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔
اس برس موسم گرما میں آٹھ جماعتی حکومتی اتحاد ٹوٹنے کے بعد کنیسٹ نے خود کو تحلیل کر دیا تھا۔ منگل کے روز ہونے والے انتخابات ساڑھے تین برس میں پانچویں عام انتخابات تھے۔
نیتن یاہو ان انتخابات کے نتائج سے یقیناﹰ خوش ہوں گے، کیوں کہ وہ خود کو فاتح کے طور پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ سن 2018 میں انہوں نے کہا تھا، ’’کمزور کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کمزور ڈھیر ہو جاتے ہیں، ذبح کر دیے جاتے ہیں، اور تاریخ سے مٹا دیے جاتے ہیں، جب کہ طاقتور، چاہے نتیجہ جو بھی ہو، باقی رہ جاتے ہیں۔‘‘
اس رویے کے ساتھ عرف عام میں ان کا ایک نام ’کنگ بی بی‘ بھی ہے۔ اس نام کی کہانی یہ ہے کہ 'بی بی‘ کا لقب انہیں اپنے ہم نام بڑے کزن سے 'ورثے‘ میں ملا تھا۔ اور'بادشاہ‘ کا لقب انہیں اسرائیل کے طاقتور ترین شخص کے طور پر دیا گیا، نتین یاہو کئی دہائیوں سے اس بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر نیتن یاہو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے دور میں دیگر طاقتور افراد اور دائیں بازو کے عوامیت پسندوں سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کی: برازیل کے بولسونارو سے ہنگری میں وکٹر اوربان اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک، جنہوں نے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کر کے اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کر کے ان پر بہت بڑا احسان کیا۔ ان اقدامات سے نیتن یاہوکو سیاسی کامیابی بھی ملی۔
نیتن یاہو کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بھی اچھے تعلقات تھے۔ سن 2019 میں نیتن یاہو کے کئی انتخابی پوسٹرز پر دونوں کی ایک ساتھ تصاویر شائع ہوئی تھیں۔ یوکرین کی موجودہ جنگ میں اسرائیل نے اپنے آپ کو یوکرین کو انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد تک محدود رکھا ہے۔
اب یہ معلوم ہونے کے بعد کہ ماسکو کو ممکنہ طور پر ایران سے ڈرون اور میزائل ملے ہیں، اسرائیل میں یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے بارے میں بحث ایک بار پھر زور پکڑ چکی ہے۔ لیکن پوٹن نہ صرف نیتن یاہو کے سیاسی دوست ہیں بلکہ وہ اسرائیلی آبادی کے ایک بڑے حصے میں بھی مقبول ہیں۔
نیتن یاہو کے والد کو ان سے زیادہ امید نہ تھی
جوانی کے ایام میں نیتن یاہو کو ابھی طاقتور فرد نہیں سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی انہیں کامیاب تصور کیا جاتا تھا۔ فلم ساز ڈین شادور نے 2019ء کے ایک انٹرویو میں کہا، ’’ان کے والد نے انہیں کبھی وقعت نہ دی۔‘‘ شادور نے کئی برس تک نیتن یاہو کی زندگی پر نظر رکھی اور ان کی دستاویزی فلم 'کنگ بی بی‘ 2019ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
نیتن یاہو تین بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان کے والد یہودی تاریخ کے پروفیسر اور بنیاد پرست صیہونی تھے۔ وہ اپنے سب سے بڑے صاحبزادے یوناتن کو اسرائیل کے مستقبل کے رہنما کے طور پر دیکھتے تھے، لیکن بینجمن نیتن یاہو سے انہوں نے کوئی امیدیں وابستہ نہیں کر رکھی تھیں۔
تاہم یوناتن سن 1976 میں یوگنڈا میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے۔ انہیں آج بھی اسرائیل میں جنگی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
جب 1960 اور 1970 کی دہائی میں اسرائیل پر بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتوں کی حکومت تھی تو اس خاندان کو اسرائیل اپنا گھر محسوس نہ ہوا اور وہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ بینجمن نیتن یاہو نے پنسلوینیا میں پرورش پائی اور گریجویشن کے بعد مینجمنٹ کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔
سن 1980 کی دہائی کے وسط میں نیتن یاہو اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب بن گئے۔ وہ ایک فصیح، نفیس اور قابل شخص کے طور پر سامنے آئے جس نے اپنے کرشمے، مزاح اور بہترین انگریزی سے لوگوں کو متاثر کیا۔ پھر سن 1988 میں وہ ایک نئی طرز کے سیاست دان بن کر اسرائیل واپس آئے۔
اسرائیلی تاریخ کا سب سے کم عمر وزیر اعظم
وہ دائیں بازو کی قدامت پسند لیکوڈ پارٹی کے رکن بن کر اسرائیلی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے اور نائب وزیر خارجہ بن گئے۔ جب اوسلو امن معاہدے کے شریک معمار وزیر اعظم رابن کو 1995 میں تل ابیب میں ایک ریلی کے دوران دائیں بازو کے ایک قوم پرست یہودی نے قتل کر دیا تو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوا۔
نیتن یاہو نے نئے وزیر اعظم شمعون پیریز پر تشدد پر قابو پانے میں ناکام رہنے کا الزام عائد کیا اور یوں اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ سن 1996 میں نیتن یاہو پہلی بار وزیر اعظم بنے۔ وہ اسرائیل کی تاریخ کے سب سے کم عمر وزیر اعظم تھے۔
اس وقت تک ان کی تیسری شادی موجودہ اہلیہ سارہ سے ہو چکی تھی۔ بعد میں سن 2019 میں سارہ پر عوامی فنڈز کے غلط استعمال کے الزام میں جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
خود نیتن یاہو کے خلاف بھی بدعنوانی کے مقدمات اب بھی زیر التوا ہیں۔ اگر وہ دوبارہ وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو اس سے ان کے سزا سے، جو عمر قید تک بھی ہو سکتی ہے، بچنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ وہ خود اپنے خلاف تحقیقات کو میڈیا اور بائیں بازو کی قوتوں کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔
سن 1999 کے انتخابات میں نیتن یاہو اپنے عہدے کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں نے ان پر اوسلو امن معاہدے پر بہت زیادہ سمجھوتہ کرنے کا الزام عائد کیا اور اس وقت بھی ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات تھے۔
دس سال بعد نیتن یاہو پھر سے اقتدار کے ایوانوں میں لوٹنے میں کامیاب ہوئے اور وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی واپسی کا جشن منایا۔
بائیں بازو کے نظریات کی طرف جھکاؤ
سن 2009 میں بار ایلا یونیورسٹی میں ان کی تقریر کو ایک معمولی انقلاب کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ تب پہلی اور آخری بار سخت گیر نیتن یاہو نے غیر مسلح فلسطینی ریاست کے ساتھ دو ریاستی حل کے امکان کا ذکر کیا۔ لیکن آنے والے برسوں میں اس طرف عملی اقدامات کی بجائے وہ دائیں بازوں کے نظریات کی طرف جھک گئے۔
غزہ کی پٹی پر حکمران حماس کے ساتھ بڑے پیمانے پر جھڑپوں نے ان کے دور حکومت کے آئندہ برسوں کی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کیا۔
جرمن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سیکیورٹی افیئرز میں اسرائیل کے امور کے ایک ماہر پیٹر لنٹل نے 2019ء میں ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’’ان واقعات نے اسرائیلی رویے کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کر دیا۔ غزہ سے انخلا کے بعد اسرائیلی عوام کا موقف یہ تھا کہ اگر ہم پیچھے ہٹتے ہیں تو ہم پر گولہ باری کی جائے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اسرائیلیوں کی اکثریت کے لیے اس کا مطلب یہ تھا کہ اسرائیل مغربی کنارے سے انخلا نہیں کر سکتا۔ لنٹل نے مزید کہا تھا، ’’اس نے دو ریاستی حل کے تصور کو گفتگو سے ہٹا دیا، خاص طور پر دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کے لیے۔‘‘
پھر دائیں بازو کی طرف واپسی
سنہ 2015 میں جب نیتن یاہو دوبارہ منتخب ہوئے تو انھوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کا ایک اتحاد تشکیل دیا جو اسرائیل کی اب تک کی سب سے دائیں بازو کی حکومت ہے۔
لیکوڈ کے دائیں بازو کی جماعتوں نے حالیہ برسوں میں نیتن یاہو کو مرکز سے مزید دور دھکیل دیا ہے، لنٹل نے کہا: "دائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ کھونے کے خوف نے نیتن یاہو کو دائیں بازو کے موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘
مختصر وقفوں میں متعدد انتخابات
اپریل 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں لیکوڈ پارٹی سب سے مضبوط قوت بن کر سامنے آئی اور اسرائیلی صدر ریوین ریولین نے نیتن یاہو کو حکومت بنانے کا انچارج مقرر کیا۔ تاہم اسرائیل کے کثیر الجماعتی منظر نامے میں اکثریت کی حمایت حاصل کرنا مشکل کام ہے۔ یہاں تک کہ نیتن یاہو جیسی طاقتور سیاسی شخصیت بھی زیادہ ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
لہٰذا ستمبر 2019 میں ایک اور الیکشن ہوا۔ ایک بار پھر کسی بھی سیاسی اتحاد نے پارلیمان نے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کی۔ ایک بار پھر سے نیتن یاہو کو حکومت بنانے کا کام سونپا گیا اور اس بار بھی وہ ناکام رہے۔
مارچ 2020 میں دوبارہ انتخابات ہوئے اور اس مرتبہ کسی بھی اتحاد کو اکثریت نہ ملنے کا سلسلہ ختم ہوا، لیکوڈ پارٹی نے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور نیتن یاہو دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
لیکن انتخابی گہما گہمی کا سلسلہ پھر بھی جاری رہا۔ حکمران اتحاد 2020 کے آخر میں بجٹ پر متفق نہیں ہو سکا تھا اس لیے اسرائیلی شہریوں کو مارچ 2021 میں دوبارہ رائے دہی کرنا پڑی۔ لیکوڈ پارٹی ایک بار پھر سب سے مضبوط قوت بن کر سامنے آئی، لیکن اب کی بار نیتن یاہو حکومت بنانے میں ناکام رہے۔ ان کی بجائے اب کی بار جیر لاپیڈ اور نفتالی بینیٹ نے لبرل نظریات رکھنے والی حکومت تشکیل دی۔
ساڑھے تین سال میں ہونے والے پانچ انتخابات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ کنیسٹ میں مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں کا اتحاد بنانا کتنا مشکل ہے۔ اب کی بار بھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نیتن یاہو کی موجودہ انتخابی کامیابی انہیں دوبارہ وزیر اعظم بنانے کے لیے کافی ہو گی یا نہیں۔
راحیل کلائن/کارلا بلائیکر (ش ح/ش ر)
نوٹ: یہ رپورٹ پہلی مرتبہ 22 نومبر، 2019 کو جرمن زبان میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا ترجمہ کیا گیا ہے اور موجودہ سیاسی پیش رفت کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا گیا ہے