نیورمبرگ ٹرائلز کے 70 برس، پرانی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش
18 نومبر 2015ایک جرمن تاریخ دان ویرنر رَینس کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان مقدمات کا مقصد ان لوگوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے جنہوں نے ہٹلر کے ساتھ ’بہت ہی معمولی حد تک تعاون‘ کیا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہولوکاسٹ کے دوران بچ جانے والے آخری لوگوں کو بھی بولنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق ایک ایسے ملک میں جو ماضی میں کیے گئے جرائم کی ابھی تک تلافی کر رہا ہے، اس کارروائی کا مقصد ’عدالتی، تعلیمی اور سماجی‘ حوالے سے انصاف کرنا ہے۔ قریب ایک درجن تفتیش کار سابق ایس ایس افسران کے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل ہی آؤشوِٹس کے نازی کیمپ میں لائے جانے والے لوگوں کا ریکارڈ رکھنے والے اوسکار گروئننگ کو چار برس سزائے قید سنائی گئی تھی۔ اس سابق نازی اہلکار پر الزام تھا کہ اس نے ہنگری سے تعلق رکھنے والے ایسے تین لاکھ یہودیوں کے قتل میں معاونت کی تھی، جنہیں مئی اور جولائی 1944ء کے دوران گیس چیمبرز میں ڈال کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ایک 91 سالہ خاتون اور دو دیگر مرد بھی، جن کی عمریں 92 اور 93 برس ہیں، آئندہ برس مقدمات کا سامنا کر سکتے ہیں۔ یہ افراد آؤشوِٹس میں کام کرتے تھے اور انہوں نے مبینہ طور پر یہودیوں کے قتل میں معاونت کی تھی۔ ان میں سے دو افراد کے مقدمات غیر معمولی طور پر نوجوانوں کی عدالت میں چلائے جانے کا امکان ہے کیونکہ جس وقت ان لوگوں نے یہ کام کیے، وہ نابالغ تھے۔
نازی دور سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے خلاف مقدمات شروع کیے جائیں یا نہیں، اس بات کا ابتدائی جائزہ عدالتیں لیتی ہیں۔ اسے ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے کیونکہ بعض اوقات جرم کو اتنا وقت گزر جانے یا پھر مشتبہ افراد کی عمر کا معاملہ بھی آڑے آتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر صرف آؤشوِٹس ہی کو دیکھا جائے، جہاں 11 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے، وہاں کام کرنے والے 6500 ایس ایس افسران میں سے 50 سے بھی کم کو سزائیں سنائی گئیں۔ رَینس کہتے ہیں، ’’سب سے پہلے تو یہ سیاسی حوالے سے شکست ہے، پھر یہ نظامِ انصاف کی شکست ہے۔‘‘ ان کی دلیل ہے کہ بعد از جنگ مغربی جرمنی نے ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے تصور کو اپنے قوانین میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے عدالتوں کے پاس نازی دور کے جرائم سے متعلق مقدمات سننے کے لیے ’ناکافی اختیارات‘ تھے۔
نیورمبرگ ٹرائلز کا آغاز 20 نومبر 1945ء کو ہوا تھا۔ ان مقدمات کو امریکا، سوویت یونین، برطانیہ اور فرانس کے ججوں نے سنا تھا۔ یہ دراصل قانونی نظام میں ایک نئی مثال تھی، جس میں جنگی جرائم کے ملزمان کے مقدمات عام عدالتوں میں سنے گئے، جہاں انہیں وکیل بھی فراہم کیے گئے اور جہاں چلنے والے مقدمات کی کارروائی دنیا دیکھ سکتی تھی۔ اس عدالت نے نازی حکومت کے 12 سینیئر ارکان کو موت کی سزا سنائی تھی۔