1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیوزی لینڈ: مسجد پر حملہ آور کو بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا

27 اگست 2020

نیوزی لینڈ میں جس بندوق برادر نے کرائسٹ چرچ کی ایک مسجد میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 51 نمازیوں کا قتل کر دیا تھا، عدالت نے اسے بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

https://p.dw.com/p/3hYxg
Neuseeland Urteil im Christchurch-Prozess
تصویر: John Kirk-Anderson/REUTERS

گزشتہ برس مارچ میں نیوزی لینڈ کی کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملہ کر کے 51 مسلم نمازیوں کو ہلاک کردینے کے قصوروار برینٹن ٹیرینٹ کو سزا سنانے کے لیے عدالتی کارروائی اسی ہفتے پیر کو شروع ہوئی تھی اور آج جمعرات 27 اگست کو عدالت نے انہیں بلا پیرول عمر قید کی سنادی۔

 برینٹن ٹیرینٹ ملک میں ایسے پہلے شخض ہیں جنہیں بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ نیوزی لینڈ میں موت کی سزا ختم کی جا چکی ہے اور ملکی قوانین کے مطابق یہ سخت ترین سزا ہے۔

ملک کی تاریخ میں پہلی بار اتنی سخت سزا سناتے وقت کرائسٹ چرچ ہائی کورٹ کے جج کیمرون مینڈر نے ٹیرینٹ سے کہا کہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اگر تمہیں تاحیات قید کی سزا دی جائے تو بھی وہ کافی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، '' آپ کے جرائم۔۔۔۔۔۔ اتنے سنگین ہیں کہ اگر تمہاری موت تک تمہیں حراست میں رکھا جائے تو بھی یہ سزا اور کفارے کے تقاضے کے لیے ناکافی ہوگی۔''

جج نے مزید کہا، ''تمہاری کارروائی غیر انسانی تھی۔ تین برس کا ایک کمسن بچہ جو اپنے والد کے پیروں سے کھیل رہا تھا تم نے اسے دانستہ طور پر قتل کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں، تم اپنے متاثرین کے لیے کسی بھی طرح کی ہمدردی سے یکسر خالی ہو۔'' 

اس سے قبل عدالت نے سفید فام نسلی برتری کے پیروکار 29 سالہ آسٹریلوی شہری ٹرینیٹ نے کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں پر حملہ کر کے 51 افراد کے قتل، 40 افراد کے اقدام قتل اور دہشت گردی کے ایک واقعے کا قصور وار قرار دیا تھا۔ ٹرینیٹ نے اپنی اس بہیمانہ کارروائی کو سوشل میڈیا پر لائیو نشر کیا تھا اور حملے سے عین قبل سفید فام نسلی برتری سے متعلق اپنا ایک منشور بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا تھا۔

Neuseeland Urteil im Christchurch-Prozess
تصویر: Reuters/J. Kirk-Anderson

عدالت میں سزا سے متعلق کارروائی گزشتہ تین دنوں سے جاری تھی جس کے دوران متاثرین کے اہل خانہ اور حملے میں بچ جانے والے متعدد افراد نے عدالت میں اپنے بیانات درج کروائے اور برنٹن ٹرینیٹ کے سامنے حملے کی ہولناکیوں کا بڑے ہی جذباتی انداز میں ذکر کیا گیا۔ لیکن اس تمام عدالتی کارروائی کے دوران حملہ آور کے چہرے پر شکن تک نہیں آئی اور ان کے چہرے کے تاثرات سے بھی نہیں لگا کہ انہیں اپنی غیرانسانی کرتوتوں پر ذرا سا بھی افسوس اور ندامت ہے۔

ٹیرینٹ نے گزشتہ ماہ اپنی دفاعی وکلا کی ٹیم کو برخاست کر تے ہوئے عدالت میں خود اپنا دفاع کرنے کی بات کہی تھی۔ لیکن سزا سنائے جانے سے قبل انہوں نے اپنی بات رکھنے کے حق کو استعمال نہیں کیا اور ان کی جگہ عدالت کی جانب سے مقرر کردہ ان کے وکیل نے چند مختصر باتیں کہیں۔ عدالت کو خدشہ تھا کہ ممکن ہے کہ وہ اس موقع پر سفید فام نسلی  برتری سے متعلق اپنی فرسودہ نظریات کی تشہیر کے لیے اس موقع کا استعمال کریں گے تاہم ان کے خود بیان نہ دینے کی وجہ سے یہ تشویش بھی نہیں رہی۔

آخری سانس تک

متاثرین کے اہل خانہ نے قانون کے تحت ٹیرینٹ کو سخت ترین سزا دینے کی استدعا کی تھی۔ نیوزی لینڈ میں موت کی سزا ختم کی ہو چکی  ہے لیکن اس کے باوجود حملے میں بچ جانے والے کئی افراد نے غصے میں ان کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ نیوزی لینڈ میں عمر قید ہی سخت ترین سزا ہے۔ عمر قید کی سزا کے تحت بھی قانون کے مطابق اگر ایک شخص نے 10 سے 17 برس جیل میں گزار لیے ہوں تو اسے پیرول پر باہر جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔  لیکن جج کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ قصوروار کو پیرول پر رہائی کے بغیر بھی عمر کی قید کی سزا سنا سکتا ہے۔

اس حملے میں شدید طور پر زخمی ہونے والے ذکریا، جو 48 دن بعد اسپتال میں چل بسے تھے، کی اہلیہ حمیمہ طویان نے جج سے کہا، ''وہ عمر قید کے طور پر 17، 25 یا پھر 30 برس کی سزا کا مستحق نہیں ہے بلکہ اسے اس کی آخری سانس تک جیل میں رکھا جا نا چاہیے۔''

سزا سنائے جانے سے قبل نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران عدالت میں مضبوطی سے اپنا موقف رکھنے کے لیے متاثرین کے اہل خانہ کی تعریف کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

ان کا کہنا تھا، ''مجھے یقین ہے کہ نیوزی لینڈ کا ہر وہ شہری، جس نے انہیں اس مشکل وقت میں ان کی تکلیف کو سمجھا یا پڑھا ہے وہ یہ دیکھ کر چور چور ہوگیا ہوگا کہ کس طرح وہ اس صدمے سے باہر آنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔'' اطلاعات کے مطابق عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد وزیراعظم آج شام اس پر باضابطہ بیان دے سکتی ہیں۔

خیال رہے کہ 15 مارچ 2019 کو کرائسٹ چرچ میں نماز جمعہ کے دوران ٹیرینٹ نے نمازیوں پر اندھادھند فائرنگ کردی تھی۔ اس نے خونریزی کے اس واقعے کو فیس بک پر لائیو نشر بھی کیا تھا۔  اس حملے کے فوراً بعد ٹرینٹ نے اپنا ایک مینی فیسٹو بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا تھا۔ حملے کے 36 منٹ بعد اسے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب، انڈونیشیا اور ملائشیا کے شہریوں کے علاوہ مقامی نو مسلم شہری بھی شامل تھے۔  اس حملے کی ساری دنیا میں شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ عالمی لیڈروں نے اس حملے کو ہولناک اور سفاکانہ قرار دیا تھا، جبکہ جسینڈا آرڈین نے ان حملوں کو اپنے ملک کی 'تاریخ کے سیاہ ترین دن‘ سے تعبیر کیا تھا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

کرائسٹ چرچ حملوں کی برسی کورونا وائرس کے سبب منسوخ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید