نیٹو نے کُنڑ کے واقعے پر معافی مانگ لی
3 مارچ 2011اس سے قبل افغان صدر حامد کرزئی نے نیٹو کی بمباری سے مبینہ طور پر درجنوں عام شہریوں کی ہلاکت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو مسائل بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔
پاکستان کے ساتھ سرحد سے ملحقہ اس افغان صوبے میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دستوں نے گزشتہ ہفتے زمینی اور فضائی کارروائی کی تھی۔ افغانستان متعینہ بین الاقوامی حفاظتی فوج ISAF کے بقول اس کارروائی میں 35 شدت پسند مارے گئے تھے۔ افغان حکومت کے تحت کی گئی تحقیقات کے مطابق اس کارروائی میں 50 خواتین اور بچوں سمیت 65 عام شہری مارے گئے تھے۔
کُنڑ کے ضلع غازی آباد کے ایک علاقے میں گزشتہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کی گئی یہ کارروائی پانچ گھنٹے تک جاری رہی تھی، جس میں زمینی دستوں کی مدد کے لیے فضائی طاقت کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔
افغان حکام کے مطابق نیٹو کی بمباری سے نو ایسے بچے بھی ہلاک ہوئے جو اس پہاڑی علاقے کے جنگلات میں لکڑیاں جمع کر رہے تھے۔ آئی سیف کا موقف ہے کہ وہ سویلین ہلاکتوں کے اس دعوے کو خاصی سنجیدگی سے لے رہی ہے اور افغان حکام کے ساتھ مل کر اس معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔
جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اس واقعے میں نو بچوں کی ہلاکت پر افغان حکومت، عوام اور متاثرین سے معافی مانگی گئی ہے۔
افغان صدر کے حالیہ مذمتی بیان سے غیر ملکی افواج اور کابل حکومت کے مابین تناؤ کی صورتحال ایک بار پھر عیاں ہوگئی ہے۔ حالات اس لیے بھی نازک تصور کیے جا رہے ہیں کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے اس جنگ زدہ ملک سے رواں سال جولائی سے ہی اپنے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کے انخلاء کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
کابل میں صدارتی محل کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق افغان صدر نے کہا، ’’میں ایک بار پھر نشاندہی کرتا ہوں کہ نیٹو اور ISAF کو اپنی کارروائیوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ دوسری صورت میں روزانہ بنیادوں پر عام شہریوں کی ہلاکتوں سے وہ خود اپنے لیے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ‘‘
کُنڑ کے دارالحکومت اسد آباد میں گزشتہ روز عام شہریوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس میں امریکہ مخالف نعرے لگائے گئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال افغانستان میں لگ بھگ ڈھائی ہزار عام شہری بدامنی کا نشانہ بنے تھے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت : مقبول ملک