نیٹو کا ترکی کے ساتھ بھرپور اظہار یک جہتی
28 جولائی 2015برسلز میں منگل 28 جولائی کو منعقد ہوئے ہنگامی اجلاس میں اٹھائیس ممالک پر مشتمل اس عسکری اتحاد کے سفارتکاروں نے یک زبان ہو کر کہا کہ وہ ترکی کے ساتھ ہیں۔ نیٹو کا یہ غیر معمولی اجلاس انقرہ حکومت کی درخواست پر بلایا گیا تھا، جس میں ترکی کو اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں سے لاحق ممکنہ خطرات پر بات ہوئی۔ اس اجلاس میں ترکی نے رکن ممالک کو اسلامک اسٹیٹ اور کُرد باغیوں کے خلاف کی جانے والی جوابی کارروائیوں کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔۔ ان عسکری کارروائیوں میں شام میں جہادیوں کے خلاف حملوں کے علاوہ شمالی عراق میں کرد باغیوں کے خلاف کارروائی بھی شامل ہے۔
اجلاس کے بعد نیٹو کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا، ’’ہم ترکی کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ ہم ترک حکام اور حالیہ حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کے کنبوں کے ساتھ تعزیت کرتے ہیں۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ دہشت گردی نیٹو رکن ممالک کی سلامتی اور عالمی استحکام کے لیے براہ راست خطرہ ہے: ’’یہ (دہشت گردی) ایک عالمی خطرہ ہے، جس کی کوئی سرحد، قومیت یا مذہب نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیےعالمی برادری کو متحد ہونا پڑے گا۔‘‘
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی ٹریٹی کے آرٹیکل چار کے تحت اگر اس عسکری اتحاد کے کسی رکن ملک کو علاقائی سطح پر، ملکی خودمختاری یا سلامتی سے متعلق کوئی خطرہ محسوس ہو تو وہ اس بلاک کا ہنگامی اجلاس طلب کر سکتا ہے۔ اسی آرٹیکل کے مطابق ترکی نے نیٹو کا اجلاس طلب کیا تھا۔ نیٹو کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں اس طرح کا یہ صرف پانچواں ہنگامی اجلاس تھا۔
نوے منٹ تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں اگرچہ تمام رکن ممالک نے ترکی کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی متعدد اقوام نے یہ بھی کہا کہ انقرہ حکومت کو کردوں کے خلاف زیادہ طاقت استعمال کر کے امن عمل کو متاثر نہیں کرنا چاہیے۔ اس اجلاس میں ترکی اس عسکری اتحاد کی یہ حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوا کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف فضائی کارروائی کر سکتا ہے۔
اس اجلاس کے بعد نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہم سب دہشت گردی کی مذمت میں شریک ہیں اور ترکی کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ منگل کے دن برسلز میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں ترکی نے البتہ نیٹو سے کسی فوجی مدد کی درخواست نہیں کی۔ یہ امر اہم ہے کہ اس عسکری اتحاد میں اپنے فوجی فراہم کرنے کے اعتبار سے ترکی دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
ادھر انقرہ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ترک اور امریکی حکام اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ترکی سے ملحقہ شامی علاقوں میں جہادیوں کو پسپا کرتے ہوئے انہیں محفوظ مقامات میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ شامی مہاجرین وہاں لوٹ سکیں۔ چین روانہ ہونے سے قبل بروز منگل ایردوآن نے مزید کہا کہ اگر کرد باغی ترکی میں حملے کریں گے تو ان کے ساتھ امن کی کوشش کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
ترک وزیر خارجہ میولت چاوَلوشُلو نے پیر کے دن پرتگالی دارالحکومت لزبن میں کہا تھا کہ داعش (اسلامک اسٹیٹ) اور PKK (کردستان ورکز پارٹی) میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انہوں نے کرد باغیوں کی اس تنظیم کو جہادیوں کے ساتھ ملاتے ہوئے مزید کہا، ’’آپ PKK کو اس لیے بہتر نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘‘