نیٹو کی سیاسی اور فوجی تاریخ پر ایک نظر
20 نومبر 2022نیٹو یعنی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن کا قیام 1949ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس اتحاد کا اہم ترین اور اولین مقصد دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سوویت یونین کی توسیع کے خطرے کو روکنے کے لیے کام کرنا تھا۔ اس سے ہٹ کرامریکہ نے نیٹو کو یورپ میں قوم پرستانہ رجحانات کی بحالی کو روکنے اور براعظم میں سیاسی انضمام کو فروغ دینے کے ایک آلے کے طور پر دیکھا۔
آرکٹک میں عسکری موجودگی بڑھانا ہو گی، سربراہ نیٹو
تاہم اس کی بنیاد اصل میں 1947ء میں ملتی ہے جب برطانیہ اور فرانس نے جنگ کے نتیجے میں جرمنی کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اتحاد کے طور پر ڈن کرک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
اس سیاسی اور فوجی اتحاد کے بارہ بانی ارکان ہیں۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے اور پرتگال شامل ہیں۔
اجتماعی دفاع : ایک پر حملہ سب پر حملہ
نیٹو بطور تنظیم ایک اجتماعی سلامتی کے اتحاد کے طور پر کام کرتی ہے، جس کا مقصد کسی بھی رکن ریاست کو کسی بیرونی ملک سے خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں فوجی اور سیاسی ذریعوں سے باہمی دفاع فراہم کرنا ہے۔
کیا نیٹو مشرقی یورپ کو بچا سکتا ہے؟
اجتماعی دفاع کی یہ شق نیٹو چارٹر کا آرٹیکل فائیو کہلاتی ہے۔ اس شق کے مطابق، ''فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکہ میں ان میں سے کسی ایک یا زیادہ پر مسلح حملے کو ان سب کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایسا مسلح حملہ ہوتا ہے، تو ان میں سے ہر ایک فوری طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کی طرف سے تسلیم شدہ انفرادی یا اجتماعی دفاع کے اپنے حق کے تحت انفرادی طور پر اور دیگر فریقوں کے ساتھ مل کر اس کی مدد کریں گے ، جس پر حملہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی کی بحالی اور اسے برقرار رکھنے کے لیے مسلح قوت کا استعمال بھی اس میں شامل ہے۔‘‘ آرٹیکل 5 کو امریکہ پر2001 ء میں 9/11 کے حملوں کے بعد ایک بار لاگو کیا گیا ہے۔
سوویت روس کے خلاف ایک طاقت
سوویت یونین نے نیٹو کے قیام کا جواب 1955ء میں مشرقی یورپ کی سات کمیونسٹ ریاستوں کے ساتھ وارسا معاہدے کے نام سے ایک فوجی اتحاد بنا کر دیا۔ لیکن دیوار برلن کے گرنے اور پھر 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام نے یورپ میں سرد جنگ کے بعد ایک نئے سیکورٹی آرڈر کی راہ ہموار کی۔
بڑی عالمی طاقتوں کے مابین مقابلے کا خطرناک مرحلہ
وارسا معاہدے میں شامل کئی سابق ملکوں نے سوویت یونین کی بیڑیوں سے آزاد ہو کر نیٹو کی رکنیت اختیار کر لی۔ وائز گراڈ گروپ کے ارکان ہنگری، پولینڈ اور چیک جمہوریہ نے 1999ء میں نیٹو اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ پانچ سال بعد، 2004 ء میں نیٹو نے بلغاریہ، ایسٹونیا، لیٹویا، لیتھوینیا، رومانیہ، سلوواکیہ اور سلووینیا پر مشتمل ولنیئس گروپ کو تسلیم کیا۔ البانیہ اور کروشیا نے 2009 ء میں نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔
نیٹو میں سب سے حالیہ اضافہ 2017 ء میں مونٹی نیگرو اور 2020 ء میں شمالی مقدونیہ تھے، جس سے اس اتحاد کے رکن ممالک کی کل تعداد 30 ہو گئی۔ سویڈن اور فن لینڈ نے اس سال کے شروع میں نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواستیں دیں اور الحاق کے مذاکرات مکمل کر لیے ۔ اب تک نیٹو کے 30 ممالک میں سے 28 سویڈن اور فن لینڈ کی درخواستوں کی توثیق کر چکے ہیں۔
تین ممالک کی درجہ بندی فی الحال ''خواہش مند ارکان‘‘کے طور پر کی گئی ہے۔ ان میں بوسنیا ہیرزیگووینا، جارجیا اور یوکرین شامل ہیں۔
کھلے دروازے کی پالیسی
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے پس منظر میں اس اتحاد میں شامل ہونے کے خواہشمد مؤخر الذکر ممالک کی کوششوں میں ایک بار پھر تیز ی آگئی ہے۔
'یہ فن لینڈ اور سویڈن کا استقبال کرنے کا وقت ہے'، نیٹو
روس یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کے تصور کو ایک سرخ لکیر قرار دیتا ہے۔ نیٹو کی اوپن ڈور پالیسی، جیسا کہ معاہدے کے آرٹیکل 10 میں بیان کیا گیا ہے، کسی بھی یورپی ملک کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دیتی ہے جو ''شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی میں اضافہ اور تعاون کر سکتا ہے۔‘‘
روس مغربی اتحاد کے لیے ’براہ راست خطرہ‘ ہے، نیٹو
نیٹو ویب سائٹ پر موجود اس آرٹیکل کے مطابق، ''نیٹو کی رکنیت کے خواہشمند ممالک سے بھی کچھ سیاسی، اقتصادی اور فوجی اہداف حاصل کرنے کی توقع کی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اتحاد کی سلامتی کے لیے کردار ادا کرنےکے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی بنیں گے۔‘‘
ش ر ⁄ ع ت (رابرٹ مج)