نیپال میں قدیم ہندو روایت ’چوپاڈی‘ کے خلاف قانون سازی
10 اگست 2017ہندو مذہب کی اس قدیم روایت کے مطابق دوران حیض میں خواتین کو ناپاک تصور کیا جاتا ہے اور گھر کو پاک رکھنے کی غرض سے ایسی خواتین کو گھروں سے باہر مٹی کی جھونپڑیوں یا پھر جانوروں کے لیے بنائے گئے چھپر کھٹ میں رہنے کو بھیج دیا جاتا ہے۔
ایامِ مخصوصہ کے دوران خواتین کو تنہائی میں رہنا پڑتا ہے اور انہیں دودھ پینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں حیض کے دوران انہیں کھانے کو بھی بہت کم دیا جاتا ہے۔ اکیلے رہنے کی وجہ سے ان عورتوں کے ریپ ہونے اور جنگلی جانوروں کی جانب سے حملے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
نیپال کی سپریم کورٹ نے سن 2005 میں چوپاڈی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر بین لگا دیا گیا تھا لیکن ملک کے پسماندہ مغربی حصے میں اب بھی یہ رسم قائم ہے۔
نیپال میں کچھ برادریوں کا ماننا ہے کہ اگر حیض کے دوران خواتین کو گھر سے باہر نہ بھیجا جائے تو اُن پر بد قسمتی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ مثلاﹰ اُن کے خیال میں یوں کوئی قدرتی آفت تباہی لا سکتی ہے۔
چوپاڈی پر قانون سازی کرنے والے پارلیمانی پینل کے سربراہ کرشنا بھکٹا پوکھارل نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت چوپاڈی ایک مجرمانہ فعل ہو گا۔ خواتین کو ایام حیض کے دوران گھر سے باہر تنہائی میں رہنے پر مجبور کرنے والے کو تین ماہ جیل کی سزا دی جائے گی۔‘‘
پوکھارل کے مطابق اس قانون کا نفاذ ایک سال میں کیا جائے گا تاکہ سزا دینے سے پہلے لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دی جا سکے۔
سن 2005 میں چوپاڈی کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے باوجود کئی ایسے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں جن میں حیض کے باعث جھونپڑیوں میں رہنے والی عورتوں پر جنگلی جانوروں کی طرف سے حملے کیے گئے، سانپوں نے عورتوں کو ڈسا اور یہاں تک کے عورتوں کا ریپ بھی کیا گیا۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مغربی نیپال میں چوپاڈی کی روایت اب بھی وہاں کے شہریوں کی زندگیوں کا حصہ ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں ایک 15 سالہ لڑکی تازہ ہوا اور آکسیجن کی کمی کے باعث جھونپڑی میں ہلاک ہو گئی تھی۔ اور کچھ عرصے قبل ایک چودہ سالہ لڑکی کو حیض کے دوران ایک خطرناک بیماری لاحق ہوگئی تھی۔ نیپال میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے اس قانون کو مثبت قرار دیتے ہوئے اسے سراہا ہے۔