نیپال میں لوڈ شیڈنگ کا جواب: ٹیلی وژن پر ’لالٹین بلیٹن‘
7 فروری 2011نیپال کے نجی ٹیلی وژن چینل کانتی پورکے چیف ایگزیکٹو پروڈیوسر بھوشن ڈاہل کے مطابق ان کے ٹیلی وژن کا نیوز پروگرام اس طرح شروع ہوتا ہے کہ ناظرین کو وہ روشنیاں دیکھنے کونہیں ملتیں، جن کے وہ عادی ہوتے ہیں، بلکہ اس پروگرام کی ابتداء اس اسٹوڈیو میں ہوتی ہے، جہاں روشنی کے لیے مٹی کے تیل سے چلنے والی ایک لالٹین استعمال کی جاتی ہے۔
نیپالی عوام کی طرح ملک کے پرائیویٹ نشریاتی اداروں کو بجلی کی مسلسل فراہمی ایک ایسا خواب بن چکی ہے، جس کی تعبیر کہیں نظر نہیں آتی۔ یہی نہیں بلکہ کئی ٹیلی وژن اداروں کو تو اس وجہ سے اپنی آمدنی میں شدید کمی کا سامنا بھی ہے۔
اسی لیے نیپالی براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن نے کانتی پور ٹیلی وژن کے ’لالٹین بلیٹن‘ کی صورت میں اس حوالے سے منفرد احتجاجی انداز کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ بھوشن ڈاہل تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اس جنوبی ایشیائی ملک کے دیگر ٹیلی وژن ادارے بھی اس طرح ان کے احتجاج میں شامل ہو گئے، تو انہیں خوشی ہو گی۔
نیپال میں بجلی کی فراہمی کے قومی ادارے NEAکے مطابق پورے ملک میں آج پیر سے پہلے سے طے شدہ ایک پروگرام کے مطابق روزانہ مجموعی طور پر 14گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ شروع ہونا تھی۔
پہلے یہی لوڈ شیڈنگ 12 گھنٹے تک کی ہوتی تھی لیکن اس دورانیے میں پیر سات فروری سے مزید دو گھنٹے کا اضافہ کر کے اسے 14 گھنٹے کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ علاقائی تعاون کی جنوبی ایشیائی تنظیم سارک کے رکن اس ملک میں بجلی کی پیداوار مزید کم ہوتی جا رہی ہے، جس کا سبب بڑی بڑی آبی ذخیرہ گاہوں میں پانی کی کمی ہے۔
اس سلسلے میں توانائی کے نیپالی وزیر پرکاش سرن مہات نے صورت حال کی گزشتہ ہفتے جو تصویر کشی کی تھی، وہ بھی کافی پریشان کر دینے والی تھی۔ انہوں نےکہا تھا کہ ملک میں چونکہ کوئی نیا بڑا بجلی گھر تعمیر نہیں کیا گیا، اس لیے نیپالی عوام کو ابھی اگلے پانچ برسوں تک بھی اس لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا ہو گا۔
بجلی کی مقامی پیداوار کے حوالے سے نیپال میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہاں زیادہ تر بجلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے۔ سالانہ بنیادوں پر ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار قریب 250 میگا واٹ بنتی ہے، جب کہ وہاں بجلی کی موجودہ طلب 780 میگا واٹ سے بھی زیادہ ہے۔
بجلی کی پیداوار کے شعبے میں کام کرنے والے نیپال کے 34 نجی اداروں نے مل کر ایک ایسی تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے، جو انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز ایسوسی ایشن آف نیپال کہلاتی ہے۔ اس تنظیم کے ایگزیکٹو مینیجر پردیپ گنگول کا کہنا ہے کہ نیپال میں ایک تو بجلی پیدا بہت کم ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ ہر سال جتنی بجلی پیدا ہوتی ہے، اس میں ایک چوتھائی عام صارفین یا تجارتی ادارے چرا لیتے ہیں۔
پردیپ گنگول کے مطابق نیپال میں نئے بجلی گھروں کی تعمیر پہلے تو طویل خانہ جنگی کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہی۔ پھر 2006ء میں یہ خانہ جنگی تو ختم ہو گئی لیکن اس کے بعد شروع ہونے والی سیاسی رسہ کشی ابھی تک بجلی کی پیداواری صنعت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ ان حالات میں پیداواری اداروں کو ہونے والے مالی نقصانات بھی کم نہیں ہیں۔
پاور پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹر مینیجر کے بقول نیپال میں پیدا ہونے والی 25 فیصد بجلی اس طرح چرا لی جاتی ہے کہ عام شہری یا نجی ادارے بجلی کی سپلائی لائنوں سے خود ہی غیر قانونی کنکشن لے کر یہ توانائی استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے کوئی ادائیگیاں نہیں کی جاتیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق