یہی خیال آتا تھا کہ نیچے وادی میں ناز و نعم میں پلے شہزادے زرق برق لباسوں میں جھیل کنارے بیٹھے مہاجر پرندوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور مزید یہ کہ ہر دوسرے شہزادے کا شوق ٹرک رکھنا ہے۔
وادی سون گو کہ ہمارے آبائی شہر تلہ گنگ کے پاس ہی تھی لیکن اس طرف آنا جانا نہیں تھا۔ پھر بچپن کی خواہش پوری ہوتی ہے اور ہم پریوں اور شہزادوں کے دیس کی طرف ٹیلی ویژن کا ایک پروگرام ریکارڈ کرنے روانہ ہوئے۔ جابہ سے سون وادی کے شروع ہونے کی اطلاع جھاٹلہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے دوست سیف نے دی، جو ہمارا ہمسفر تھا لیکن مجھے اس اطلاع پر شبہ ہونے لگا۔ سڑک ٹوٹی پھوٹی تھی اور آس پاس کوہ قاف کا طلسمی پن کہیں نہیں تھا۔
وادی سون کے حوالے سے آپ نے بھی بہت سن رکھا ہو گا۔ ہماری ہر آنے والی حکومت کا ایک پسندیدہ بیان ہوتا ہے کہ پاکستان سیاحوں کی جنت ہے اور پاکستان سیاحت سے بہت سا زر مبادلہ کما سکتا ہے۔ اسی حوالے سے وادی سون کا ذکر اکثر ہوتا رہتا ہے کہ یہ وادی اپنی جھیلوں، آبشاروں اورآثار قدیمہ و ثقافت کی وجہ سے کمال سیاحتی مرکز بن سکتی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وادی تک بڑے شہروں سے پہنچنا آسان بھی ہے۔
زمینی حقائق یکسر مختلف نکلے۔ سڑکوں کا برا حال ہے۔ کثیر آبادی ناقابل بیان غربت کا شکار ہے۔ تعلیمی حوالے سے پسماندگی ہے۔ شعبہ سیاحت سے مقامی لوگوں کا دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔ مجھے سیاحت کے شعبہ کا مطالعہ کرتے قریب قریب بائیس سال ہو گئے ہیں اورطالبعلمانہ رائے یہی ہے کہ جب تک سیاحت کے معاشی ماڈل سے مقامی آبادی کا براہ راست تعلق نہیں ہے وہاں سیاحت کا شعبہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔
مقامی آبادی کی بھی سن لیں! اس مقامی آبادی میں کچھ سرپھرے رہتے ہیں، جنہوں نے وادی سون میں سیاحت کے حوالے سے انفرادی سطح پر اتنا کام کیا ہے کہ ان کے کام کے مقابلے میں حکومتی کاوشیں مضحکہ خیز نظر آتی ہیں۔ بابا سرور اعوان ایک بہت بڑا نام ہے، جنہوں نے وادی سے محجرات (فوسلز) اور ثقافت کے حوالے سے نادر نمونے اکھٹے کیے، جو آج ان کے گھر کے ایک کمرے میں کچھ یوں پڑے ہیں کہ ان پر گرد کی تہیں ہیں اور جالے ہیں۔
کسی حکومتی ادارے کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ان کو اٹھا کرکوئی ایک کمرے کا عجائب گھر ہی بنا دیں اور چاہے اس پر ٹکٹ لگا کر سیاحت سے آمدنی کا شوق بھی پورا فرما لیں۔ بابا سرور اعوان اپنے علاقے کے عشق میں مبتلا کمال شخص تھے۔ انہوں نے وادی سون پر ایک بہت خوبصورت کتاب لکھی، جو لوک ورثہ نے شائع کی اور لوک ورثہ میوزیم میں وادی سون سیکشن کے لیے قیمتی نمونے دیے۔
ایک اور سر پھرے عدنان عالم اعوان ہیں، جنہوں نے وادی سون میں پچاس سے زائد ٹریکس کیے اور کئی دریافتیں کیں لیکن ان کا یہ کام بھی سوشل میڈیا تک ہی محدود ہے۔ حسن ذوالفقار اعوان اور اعجاز اعوان بھی سوشل میڈیا پر وادی سون کے کمال وکیل ہیں اور ماحولیات کے حوالے سے آگہی پیدا کرتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن یہ سب انفرادی کاوشیں ہیں، جن کو سراہا تو جا سکتا ہے لیکن اس سے کلی طور پر سیاحت کے شعبہ پر کوئی بڑا مثبت اثر پیدا نہیں ہو سکتا۔
ہم کنہیٹی گارڈن گئے۔ معلوم ہوا آبشاروں پر جانے پر پابندی ہے۔ پوچھا ایسا کیوں ہے؟ بتایا گیا کہ نہاتے ہوئے کچھ لوگ غفلت کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوئے تھے تو اس لیے آبشاروں پر جانے پر ہی پابندی عائد کر دی گئی۔ ایک مقامی دوست نے بات چیت کی اور ہمیں روانگی کی اجازت مل گئی۔ جب کنہیٹی گارڈن میں آبشارو ں کی طرف روانہ ہوئے تو دو خاندان، جن میں بچے عورتیں وغیرہ شامل تھے واپس آتے ہوئے ملے۔ پوچھا پابندی ہے تو یہ فیمیلیز کیسے آبشاروں پر جا رہی ہیں۔ بتایا گیا ضلعی افسران کے جاننے والے ہیں پابندی 'عام عوام‘ کے لیے ہے یعنی کہ سبحان اللہ ۔ گزشتہ پچھتر برسوں میں 'پابندی‘ سے زیادہ آزمودہ نسخہ ہماری حکومتیں آج تک دریافت کرنے سے قاصر ہی رہی ہیں۔
اوچھالی کی جانب نوشہرہ سے، جو سڑک جاتی ہے اس پر اتنے گڑھے ہیں کہ ہر گڑھے میں جب آپ کی گاڑی لگتی ہے تو کانوں میں ایک ہی فقرہ گونجنے لگتا ہے کہ ''پاکستان سیاحت کے حوالے سے جنت ہے اور ہم سیاحت سے کثیر زرمبادلہ کما سکتے ہیں‘‘۔ اوچھالی جھیل پر مہاجر پرندے دیکھے۔ انسان کے سائے سے بھی خوفزدہ پرندوں کو دیکھا اور مقامی لوگوں سے پرندوں کے خوفزدہ ہونے کے حوالے سے پوچھا کہ کیا یہاں شکار پر واقعی پابندی ہے؟
ہنسنے لگے اور کہا کہ کلومیٹرز پر پھیلی اس جھیل اور ملحقہ جنگلات کی رکھوالی کے لیے چند گارڈز (غالبا انہوں نے تین گارڈز بتائے) ہیں تو پرندوں کی رکھوالی کیسے کر سکتے ہیں۔ پوچھا کیا مقامی آبادی کی آگہی کے لیے اور بالخصوص یہاں کے سکولوں میں اس حوالے سے کوئی تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی کہ یہ پرندے ہمارے مہمان ہیں اور مہمانوں پر گولی چلانا یا ان پر پتھر پھینکنا ہماری روایات میں نہیں ہیں۔
کہنے لگے کچھ این جی اوز نے انتہائی محدود پیمانے پر کسی وقت میں یہ کام کیا تھا، باقی ایسی کوئی آگہی مہم نہیں چلائی گئی۔ میں نے مقامی دوستوں کو کہا کہ اگر مقامی آبادی کو اس کار خیر میں شریک نہ کیا جائے تو آپ چاہے یہاں سیکڑوں گارڈز بھی کھڑے کر دیں شکار کہاں رک سکتا ہے۔ یہ بات میں نے ان کو اس لیے کہی کہ پاکستان میں جنگلی حیات میں، جہاں بھی ہمیں کامیابی نصیب ہوئی ہے، وہ مقامی آبادی کی اس کار خیر میں شرکت سے ہوئی ہے۔ اس کی بڑی مثالیں گلگت بلتستان میں ملتی ہیں۔
ٹی ڈی سی پی کے افسر معظم نے کھبیکی جھیل کنارے خوبصورت کام کیا ہے۔ بندوبست کو دیکھ کر کہیں نہیں لگتا کہ یہ حکومتی سیٹ اپ ہے۔ اصل میں پی ٹی ڈی سی ہو یا ٹی ڈی سی پی، ہم نے یہی دیکھا ہے کہیں کوئی موزوں شخص آ گیا تو وہ بہترین چل گئے وگرنہ برا حال ہوتا ہے۔ ٹی ڈی سی پی کے نظم و نسق کو دیکھ کر پی ٹی ڈی سی بشام یاد آ گیا، جو اپنی مہمان نوازی کے حوالے سے مشہور تھا لیکن اس کی اس شہرت کے پیچھے اس کے مینیجر شیرستان کی انفرادی کاوشوں کا ہاتھ تھا۔
یہ شیرستان وہی ہیں، جن کا ذکر مستنصر حسین تارڑ کی اکثر کتابوں میں ملتا ہے۔ معظم صاحب سے پوچھا کہ اوچھالی میں کشتی رانی پر پابندی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔کہنے لگے پرندوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کس سے اور کہاں خطرہ درپیش ہے۔ جس علاقے میں وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کریں وہاں آپ کے کاندھوں پر آ بیٹھتے ہیں۔ پرندوں کو کشتی رانی سے کیا خوف ہو سکتا ہے۔ پرندوں کا خوف صرف شکار کے حوالے سے ہے۔ ہمیں تمام تر کاوشیں شکار کو ختم کرنے پر لگانی ہوں گی۔ سیاحتی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آتا۔
سنتے تھے احمد ندیم قاسمی کا گاؤں وادی سون میں ہے۔ ان کے گھر گئے تو دیکھ کر کمال حیرت ہوئی۔ کیا خوبصورت قدیم گھر ہے اور عجب خاموشی اور سکون لیے ہوئے ہیں۔ کھنگر کے پتھر سے بنی ایک دیوار سلامت ہے۔ ان کے گھر کو دیکھ کر قاسمی صاحب کی یہ نظم یاد آ گئی، جو شاید ان کے گھر کی بہترین منظر کشی کرتی ہے
بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو
یہاں سے دور محبت کا ایک قریہ ہے
یہاں دھوئیں نے مناظر چھپا رکھے ہیں مگر
افق بقا کا وہاں سے دکھائی دیتا ہے
یہاں تو اپنی صدا کان میں نہیں پڑتی
وہاں خدا کا تنفس سنائی دیتا ہے
لیکن احمد ندیم قاسمی کا نام وادی سون میں کہیں نظر نہیں آیا۔ نہ ہی انگہ گاؤں میں داخل ہوتے وقت نہ ہی گھر کے آس پاس۔ تصور کیجیے کہ یہ ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے ایک احمد ندیم قاسمی کا گھر ہے۔ کچھ یہی صورتحال عبدالقادر حسن کے گاؤں کھوڑا کی تھی۔
اوچھالی سے امب شرف کی جانب سفر شروع کیا تو کہیں کوئی معلوماتی بورڈ نظر نہیں آیا۔ سب یہی کہتے تھے کہ آگے جائیں گے تو ایک سیاست دان کا انتخابی مہم کے حوالے سے بورڈ لگا ہو گا، وہاں سے دائیں مڑ جائیے گا۔ امب کے آثار قدیمہ میں کہیں کوئی معلوماتی بورڈ نظر نہیں آیا، جو سیاحوں کو بتائے کہ اس کی تاریخ کیا ہے۔
آثار قدیمہ کے درمیان سے جس ٹھیکیدار نے بھی سڑک گزاری، اس کو سلام ہے لیکن یہ ایسی حیران کن بات بھی نہیں ہے کہ آثار قدیمہ کے حوالے جو ہم نے معاشرے میں حساسیت پروان نہیں چڑھائی، اسی کا یہ سب نتیجہ ہے۔ امب کے مندر اور نواح سے کیا کچھ نکلا اور کہاں گیا یہ الگ کہانی ہے۔
وادی سون میں ہر طرف پلاسٹک کے تھیلوں کا انبار نظر آیا۔ اگر ٹوٹی پھوٹی سڑک، گندگی، منہ چڑھاتی غربت، میلوں پیدل سفر کرتے سکول کے بچوں کو تھوڑی دیر کے لیے صرف نظر کیا جائے تو وادی سون کا ہر پتھر داستان گو ہے۔ قدیم عمارتیں اثاثہ ہیں۔ لینڈ سکیپ کا جواب نہیں۔
دھند میں لپٹی جھیلوں میں پرواز کرتے پرندوں کی کوئی مثال نہیں۔ امب کی طرف جاتی سڑک پاکستان کی خوبصورت ترین مناظر لیے ہوئے ہے۔ سرکی گاؤں عجب دیومالائیت لیے ہوئے ہیں۔ نوشہرہ کی قدیم عمارتیں اثاثہ ہیں۔ نوشہرہ کا گوردواہ، جو اب گرنے کے قریب ہے وادی سون کا ایک بہت اہم سیاحتی مرکز ہو سکتا ہے۔ مقامی لوگوں کی مہمان نوازی کا جواب نہیں۔ وادی سون میں کئی پیالے نما آبادیاں ہیں، جس کو دیکھو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
لیکن قدرت کی ان فیاضیوں اور وادی سون کے مقامی باشندوں کی انفرادی کاوشوں سے نظر ہٹائیے تو وادی سون کا شہزادہ نظر آتا ہے، جس کے پاؤں میں چپل نہیں ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔