واشنگٹن کی توجہ مشرق وسطیٰ تنازعے کے حل پر
24 جنوری 2011الجزیرہ نے خفیہ سفارتی دستاویزات کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی مذاکرات کار 2008ء کے دوران مقبوضہ مشرقی یروشلم کا کچھ حصہ اسرائیل کو دینے کی پیش کش کرچکے ہیں۔
فلسطین کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب ایریکات الجزیرہ کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کا مؤقف اقوام عالم پر واضح ہے اور اس میں کوئی معاملہ خفیہ نہیں۔
الجزیرہ کے ساتھ ساتھ برطانوی اخبار گارجیئن نے بھی یہی دستاویزات عام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق فلسطینیوں کی جانب سے اس ’تاریخی رعایت‘ کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی پیش کش نہیں کی گئی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس، سابق اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی، فلسطینی انتظامیہ کے سابق وزیر اعظم احمد قوری اور صائب ایریکات کی موجودگی میں یہ پیش کش کی گئی تھی۔ دستاویزات کے مطابق اسرائیلی حکام یروشلم پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔
الجزیرہ کو موصولہ ان دستاویزات کے مطابق فلسطینیوں نے امریکہ اور اسرائیل پر واضح کیا تھا کہ وہ مسئلے کے حل کی جو تجویز پیش کر رہے ہیں اس پر وہ 2000ء میں کیمپ ڈیوڈ میں منعقدہ مذاکرات میں تیار نہیں تھے۔ دستاویزات کے مطابق فلسطینی حکام مغربی کنارے میں ایسی کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔
مشرقی یروشلم کے جو علاقے مبینہ طور پر اسرائیل کو دیے جانے کی تجویز پیش کی کئی گئی تھی ان میں وہ بستیاں شامل ہیں جہاں یہودی آباد ہیں، مثال کے طور پر فرنچ ہل، رامات الون، گیلو اور شہر کے پرانے حصے میں یہودی اور امریکی کوارٹر کے علاقے۔
ان دستاویزات سے متعلق ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کرولی نے کہا ہے کہ امریکہ کی توجہ مسئلے کے حل پر مرکوز ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل