وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک کی مقبولیت میں اضافے کا امکان
27 اکتوبر 2011کانگریشنل بجٹ آفس کی جانب سے جاری کی گئی معلومات کے مطابق 1979ء سے 2007ء کے دوران ملک کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی اوسط ماہانہ اجرت میں 275 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں ملک کی بقیہ آبادی کی اوسط ماہانہ اجرت میں محض 39 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی تحقیق میں اس تاریک پہلو کی بھی نشاندہی ہوئی کہ متوسط ترین طبقے کی ماہانہ اجرت میں گزشتہ 28 سالوں کے دوران سالانہ بنیادوں پر ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس اور معتبر اخبار نیو یارک ٹائمز کے حالیہ جائزوں کے مطابق اس طرز کی کچھ دیگر تحقیقی رپورٹوں کی بدولت ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘ کی مہم کی مقبولیت میں پہلے ہی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ نیو یارک سے شروع ہونے والی یہ تحریک امریکہ کے دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ملکوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ 17 ستمبر کو شروع ہونے والی اس تحریک کے کارکن دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے ہیں۔ احتجاج کرنے والے بڑے مالیاتی اداروں پر حکومتی پالیسیوں میں بے جا مداخلت کا بھی الزام عائد کر رہے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز اور سی بی ایس کے جائزے میں ڈیموکریٹک نظریات کے حامی 54 فیصد اور ری پبلکن نظریات کے حامی 19 فیصد رائے دہندگان نے ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو’ تحریک کے حق میں رائے دی۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو آزاد نظریات کا حامل تصور کرنے والے امریکیوں میں سے 48 فیصد اس تحریک کے حامی ہیں۔ واضح رہے کہ رجسٹرڈ امریکی ووٹروں میں سے 30 تا 40 فیصد خود کو آزاد نظریات کا حامل قرار دیتے ہیں، جن کی رائے اگلے سال کے صدارتی انتخاب کے پس منظر میں خاصی اہمیت کی حامل ہے۔
2010ء کے وسط مدتی انتخابات میں ری پبلکنز کی کامیابیوں میں اہم کردار نبھانے والی ٹی پارٹی کے مقابلے میں ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘ کی مقبولیت کو زیادہ دیر پا تصور کیا جا رہا ہے۔ آلٹرنیٹ نامی ویب سائٹ کی مدیر جوشوا ہولینڈ کا کہنا ہے کہ اس تحریک نے ایک ماہ کے اندر اندر ریاستی قرضوں کے بحران کے خشک موضوع سے توجہ ہٹاکر اسے ملازمتوں کی کمی، قرضوں میں گھرے ہوئے امریکی خاندانوں، عدم مساوات اور سیاست میں سرمائے کے اثر و رسوخ کی جانب مبذول کر وا دی ہے۔
کانگریشنل بجٹ آفس کی جائزے میں ایوان نمائندگان میں اکثریت کی حامل ری پبلکن پارٹی کو امراء اور بڑی کمپنیوں پر اضافی محصولات کے نفاذ کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ کے شریک مصنف اور معاشی امور کے ماہر جوش بیوینز کے بقول یہ تاثر درست ہے کہ اقتصادی پالیساں بنانے والوں نے عوام کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ بعض مبصرین البتہ اس دعوے سے متفق نہیں۔ 2008ء کے معاشی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے ایک تجزیہ نگار مائیکل ٹینر کا کہنا ہے کہ اس دوران سب سے زیادہ نقصان امراء اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا ہی ہوا تھا اس لیے اس نکتے پر بھی غور ضروری ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت :امتیاز احمد