ورچوئل کرنسیاں پاکستان میں مزید مقبول ہوتی ہوئیں
16 جولائی 2021اسلام آباد کے رہائشی غلام احمد نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے، جس کے ممبران کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ڈیجیٹل کرنسیوں کے ماہر احمد ایک ہفتے میں ایک بار اس گروپ میں شریک ہوتے ہیں اور لوگ ان سے آن لائن کرنسیوں کے استعمال اور تجارت کے بارے میں مشورے لیتے ہیں۔
اگرچہ آن لائن ڈیجیٹل کرنسیوں پاکستان میں غیرقانونی نہیں ہیں لیکن عالمی سطح پر ان کی مانگ و مقبولیت میں روزافزوں اضافے کے باوجود زیادہ تر لوگ اس بارے میں کم علم ہیں۔
مستقبل، یہی کرنسی ہے
احمد کے واٹس ایپ گروپ میں گھریلو خواتین کی ایک معقول تعداد ہے، جو سائیڈ بزنس کے طور پر بٹ کوائن یا ایسی دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم بہت سی ممبران روایتی اسٹاک مارکیٹ کی پیچیدگیوں سے لاعلم ہیں لیکن عالمی بُوم کی وجہ سے اب وہ اس کاروبار میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیے- پاکستان: کرپٹو کرنسی مائننگ فارم قائم کرنے کا منصوبہ
احمد نے بتایا کہ جب وہ واٹس ایپ گروپ میں جاتے ہیں تو وہاں سوالوں کا سمندر ہوتا ہے۔ ان کے بقول وہ کئی گھنٹوں تک لوگوں کو بنیادی معلومات کے ساتھ ساتھ مفید مشورے دیتے ہیں۔
غلام احمد نے سن دو ہزار چودہ میں ملازمت کو خیرباد کہہ دیا تھا اور آن لائن ڈیجیٹل کرنسی کی چکاچوند صنعت میں قدم رکھا تھا۔ ان کو یقین تھا کی یہ ایک منافع بخش کاروبار ثابت ہو گا اور ہوا بھی ایسے ہی۔ آج وہ فخر کے ساتھ اپنے اس فیصلے کو اپنی زندگی کا ایک اہم موڑ قرار دیتے ہیں۔
اب پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسیوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ٹریڈنگ اور مائننگ کے حوالے سے بنائی گئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہزاروں بار دیکھی جاتی ہیں۔
ڈیجیٹل کرنسی بھی دہشت گردی پر خرچ ہو سکتی ہے
ڈیجیٹل کرنسیوں کی مقولیت میں مزید اضافے کے نتیجے میں ایسے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں کہ ان ورچوئل رقوم کو غلط مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے منی لانڈرنگ کے واچ ڈاگ ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ وہ اس صنعت کو بہتر طریقے سے ریگولیٹ کرے تاکہ کوئی بھی انتہا پسند دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو استعمال نہ کر سکے۔
حکومت پاکستان نے اس کرنسی کی ریگولیشن کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے، جس میں ایف اے ٹی ایف کے ماہرین اور کچھ وفاقی وزراء کے علاوہ ملکی خفیہ ایجنسیوں کے چیف بھی شامل ہیں۔
بہتر قواعد و ضوابط بنائیں جائیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کو بھرپور طریقے سے ریگولیٹ کرنے میں وقت درکار ہو گا۔ چونکہ اس کی مانیٹرنگ کا طریقہ کار ابھی تک وضع نہیں کیا جا سکا ہے، اس لیے پاکستان میں کئی ادارے اس صنعت سے وابستہ لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے-بِٹ کوائن کی مقبولیت میں غیرمعمولی اضافہ
غلام احمد کا کہنا ہے کہ ملک کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے دو مرتبہ انہیں گرفتار کیا اور ان پر الزامات عائد کیے کہ وہ منی لانڈرنگ اور الیلکٹرانک فراڈ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ احمد کے بقول تاہم عدالت میں یہ الزامات ثابت نہ ہو سکے۔
جہاں پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، وہیں کچھ گروپ اس کے شدید خلاف بھی ہیں۔ ان میں سے ایک معروف اینکر وقار ذکا بھی ہیں، جو گزشتہ کئی برسوں حکام کے ساتھ لابی کر رہے ہیں کہ ایسی کرنسیوں کو پاکستان میں قانونی قرار نہ دیا جائے۔
تاہم غلام احمد کا اصرار ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی مقبولیت اور کاروبار کو روکا نہیں جا سکتا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت اس صنعت کی ریگولیشن کے لیے قواعد و ضوابط طے کرے اور دنیا کے ساتھ ہی چلے۔
ع ب/ ع ح (روئٹرز)