وزیر اعظم اپنے عہدے سے مستعفی، ملا جلا ردعمل
28 جولائی 2017سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ پاناما کیس ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ایک طرف تو پاکستان کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کو سراہا جا رہا ہے تو اس فیصلے کی زبردست تنقید بھی کی جارہی ہے۔
پاناما لیکس کا معاملہ منظر عام پر لانے والے جرمن صحافی باسشین اوبرمائیر نے پاناما کیس کے معاملہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’تاریخی فیصلہ، آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے بعد اب نواز شریف کو پاناما پیپر کے باعث اپنا عہدہ چھوڑنا پڑ رہا ہے۔‘‘
طلعت اسلم نے لکھا،’’ وزیراعظم کی نااہلی اتنی حیران کن نہیں ہے جتنا کہ ضیاء کے دور میں بنائے گئے آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینا۔‘‘
صحافی سید طلعت حسین نے لکھا،’’ نواز شریف اپنے عہدہ یہ کہتے ہوئے چھوڑیں گے کہ ان کے ساتھ بہت زیادہ نا انصافی کی گئی ہے۔ وہ وزیر اعظم ہاؤس شام تک چھوڑ دیں گے اور اپنے تعلقات پر مبنی ایک نئی مہم کا آغاز کریں گے۔‘‘
شاہ زیب جیلانی نے لکھا،’’ نواز شریف قانونی، سیاسی اور اخلاقی طور پر شدید زخمی ہو گئے ہیں۔‘‘
عابد بلوچ نے لکھا،’’ نواز شریف کو ایک مرتبہ صدر، ایک مرتبہ آرمی چیف اور اب ایک مرتبہ سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا ہے۔‘‘
صحافی احمد نورانی نے لکھا،’’ نواز شریف وہ واحد پاکستانی ہیں جو طاقت ور قوتوں کے خلاف کھڑے ہوئے اور اس کی قیمت بھی چکائی۔ انہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے صرف یہی پاکستان کو آمروں کے خلاف لے کر چل سکتے ہیں۔‘‘
بھارت کی نامور صحافی برکھا دت نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا،’’ نواز شریف قصور وار ہیں یا نہیں، سچ یہ ہے کہ فوج نے ان کی جگہ کو تنگ کر دیا تھا۔ انہوں نے نئے آرمی چیف پر زیادہ انحصار کیا تھا، وہ غلط تھے۔‘‘
صحافی مبشر علی زیدی نے لکھا،’’کبھی بندوق والا جیت جاتا ہے، کبھی ہتھوڑے والا، ووٹ والا ہمیشہ ہار جاتا ہے۔‘‘