وزیر اعظم گیلانی کی اہم ملاقاتیں
3 جنوری 2011گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے حکومت چھوڑنے کے اعلان کے بعد سے پاکستانی سیاسی منظر نامے میں ہلچل برپا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی واشنگٹن کی یہ اہم اتحادی حکومت پارلیمان میں اکثریت سے محروم ہوچکی ہے۔
پیر کو کاروباری ہفتے کے آغاز کے موقع پر اسٹاک مارکیٹوں میں سیاسی بحران کے اثرات نمایاں رہے۔ ایم کیو ایم کے حکومت سے نکلنے کے بعد اب اگر اپوزیشن جماعتیں مل کر اتحاد کرلیں اور حکومت پر عدم اعتماد کی تحریک سامنے لے آئیں تو پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت گرسکتی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے گیلانی مسلم لیگ ن اور ق کی قیادت کے ساتھ ملاقات میں بحران سے نمٹنے کے امکانات کا جائزہ لیا۔ وزیر اعظم گیلانی نے پہلے لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات بھی اور اس کے بعد وہ چوہدری شجاعت حسین کے گھر جاکر ان سے ملے۔ دونوں رہنماوں سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم گیلانی نے عزم ظاہر کیا حکومت قائم رہے گی۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم سے قبل جمعیت علمائے اسلام اور اس سے قبل مسلم لیگ ن حکومت سے علیحدہ ہوچکے ہیں۔
سیاسی مبصرین کی رائے میں موجودہ حکومت کے لئے 2013ء تک اپنی مدت مکمل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں کے کسی اتحاد کے بننے کے امکانات بھی اس لئے کم بتائے جاتے ہیں کیونکہ اپوزیشن کے مقبول رہنما نواز شریف کے تعلقات دیگر جماعتوں کے ساتھ زیادہ اچھے نہیں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران کی صورتحال میں عوامی مشکلات میں اضافہ سب سے زیادہ تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ اس جنوب ایشیائی ریاست میں گزشتہ سال کے ابتدائی پانچ ماہ کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 21 فیصد سے زائد کی کمی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردانہ کارروائیوں کا تسلسل برقرار رہا جبکہ مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ ایوان صدر اور وزیر اعظم گیلانی پر اعتماد ہیں کہ کوئی بھی جماعت عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کرے گی۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کے بقول ایم کیو ایم سے اُن کے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے کہا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات قمر زمان قائرہ نے کہا ہے کہ حکومت ناراض اتحادیوں کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: کشور مصطفیٰ