وزیرستان آپریشن: صورتحال پر غور کے لئے کابینہ کا اجلاس طلب
17 نومبر 2009اجلاس میں وزیرستان میں آپریشن، قیام امن اورنقل مکانی کرنے والوں کے بارے میں اٹھانے جانے والے حکومتی اقدامات پر کابینہ کواعتماد میں لیاجائے گا۔ دوسری جانب پاکستانی صدر نے وزیراعظم اور سرحد حکومت کی سفارش پر سرحد کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 2009ء کی منظوری دے دی ہے۔ ان علاقوں میں اب کوئی قانون گورنر کی منظوری کے بغیر نافذ العمل نہیں ہوگا۔ اس قانون کے نفاذ سے مقدمات کی جلد سماعت ممکن ہوگی، تاہم جنوبی وزیرستان آپریشن اوروفاقی حکومت کے اقدامات سے سرحدحکومت مطمئن نظرنہیں آتی۔ سرحد حکومت جہاں جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن سے چارماہ قبل اعلان کوتنقید کانشانہ بنارہی ہے وہاں اس آپریشن کادائرہ دیگر قبائلی علاقوں تک بڑھانے کا بھی مطالبہ کررہی ہے۔
سرحدحکومت کے ترجمان میاں افتخارحسین کاکہناہے : ’’ آپریشن کا فوکس وزیرستان ہونا چاہئے جبکہ دیگر علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کیا جانا چاہئے، جہاں عسکریت پسندوں نے پناہ لےرکھی ہے۔‘‘
دوسری جانب آپریشن کے ذریعے عسکریت پسندوں سے صاف کرائے جانے والے علاقوں میں اصلاحات اور ترقیاتی عمل میں تاخیر سے عوام کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن مسائل کا واحد حل نہیں ہے بلکہ ان علاقوں کے عوام کو بنیادی سہولیات اور فوری انصاف کی فراہمی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں گزشتہ سوسال سے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے قوانین نافذ ہیں، جس میں متعدد قبائلی عمائدین اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
قبائلی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر الطاف اللہ خان کاکہناہے : ’’وقت آگیا ہے کہ حکومت، قبائلی عوام اورمنتخب نمائندوں کو اعتماد میں لے کر قبائلی عوام کو قومی دھارے میں شامل کرے۔ یہی مناسب وقت ہے کہ حکومت اپنی عمل داری کو قائم کرنے کے لئے اقامات اٹھائے قبائلی علاقوں سے منتخب ہونے والے پارلمنٹیرین کو بٹھاکر سمجھا یا جائے کہ حکومت اصلاحات کررہی ہے۔ ایف سی آر ختم کرکے متبادل قوانین لارہی ہے۔ آپکی حیثیت وہی رہے گی آپ کا حلقہ انتخاب وہی رہے گا اور اصلاحات کے بعد آپ سیاسی پارٹی بناسکیں گے یہ ایک موزون وقت کہ حکومت ان قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرکے ان علاقوں میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر کام تیز کرے۔ آپریشن کے بعد یہی خطرہ رہتا ہے کہ قانونی خلاء پیدا نہ ہوجائے اور اس خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منفی قوتیں پھر متحرک ہو سکتی ہیں۔‘‘
تقریبا ًایک کروڑ کی آبادی والے قبائلی علاقوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ تاہم فاٹا سیکریٹیریٹ کے ذرائع کاکہنا ہے کہ حکومت نے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو قبائلی علاقوں تک توسیع دینے کی تیاری مکمل کردی ہے اورامکان ہے کہ اگلے چار ماہ تک قبائلی علاقوں میں پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کے نفاذ سے سیاسی سرگرمیاں شروع ہوسکیں گی۔
ادھر پشاورکی سرحد پر واقع خیبرایجنسی کی تحصیل باڑہ میں عسکریت پسندوں نے سکولوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کاسلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ عسکریت پسندوں نے ملک دین خیل کے علاقے میں گرلز مڈل سکول کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا ہے۔ علاقے میں اس طرح کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔
رپورٹ :فریداللہ خان، پشاور
ادارت : عاطف توقیر