1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ویت نام میں خواتین کے تین روزہ عالمی اقتصادی فورم کا آغاز

AL/QZ5 جون 2008

دنیا بھر میں مختلف کاروباری شعبوں میں نمایاں کردار کی حامل خواتین کی ایک عالمی کانفرنس ان دنوں ویت نام کے شہر ہنوئے میں ہورہی ہےجو اپنی نوعیت کا 18واں عالمی اجتماع ہےاور جوپانچ سے سات جون تک جاری رہے گا۔

https://p.dw.com/p/EEBw
افغان بزنس وومن سارہ رحمانی اپنے تیار کردہ ملبوسات کے ساتھ۔ ان کے ہاتھ میں لباس روائتی افغان برقعے سے تیار کیا گیاتصویر: AP

اس فورم کوسوئٹزرلینڈ میں ہرسال ہونے والےعالمی اقتصادی فورم کا متبادل اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ اس کی شرکاء صرف خواتین ہوتی ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں قابل ذکر ‌خدمات انجام دی رہی ہوتی ہیں۔

اس عالمی کانفرنس میں شامل کاروباری شعبے کی سرکردہ خواتین آپس کے رابطوں کوعملی مہارت اور تجربات کے تبادلے کے لئے استعمال کرتی ہیں کیونکہ دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا اجتماع ہے جو اگر اپنے جملہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو دنیا کی آدھی آبادی کی حالت بدل سکتی ہے۔ ہنوئےمیں امسالہ فورم کا موضوع خواتین اور ایشیا کا عالمی معیشی ترقی میں کردارہے۔

اعلیٰ عہدوں پر خواتین کا تناسب 20 فیصد

آج کل بہت سے کاروباری اور پیداواری اداروں میں خواتین مینیجرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کے باوجود اب بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین مینیجرز کی تعداد خاصی کم ہے۔ صرف 20 فی صد خواتین اعلی عہدوں پر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔

عالمی منڈیوں میں اگرچہ ایشیائی ملکوں میں ہونے والی معیشی ترقی کی بڑی دھوم ہےتا ہم اس ترقی کے عمل میں خواتین کے کردار کو کافی حد تک تسلیم نہیں کیا جاتا۔ Teresa Ganzon فلپا ئن کے ایک علاقائی بینک Bango Kabayan کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ بہت سے ایشیائی ممالک میں مجموعی سماجی روئیے بھی خواتین کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

Kenia WSF Weltsozialforum in Nairobi Frauen
نیروبی منعقدہ عالمی سماجی فورم کے موقع پر کاروباری دنیا سے تعلق رکھنے والی خواتین کارکنان سماجی انصاف کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: AP

ٹیریسا کہتی ہیں کہ ایسے شعوری روئیے بھی پا‍ئے جاتے ہیں کہ خواتین کو اس وقت مردوں سےبہت بہتر کارکردگی نہیں دکھانی چاہیےخصوصاً جب وہ مردوں کے ساتھ کام بھی کر رہی ہوں۔ ان کے مطابق خواتین کو اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانے کے لیےایسا طرز گفتگو اپنانا پڑتا ہے کہ جیسےوہ کوئی تجویز دے رہی ہوں نہ کہ کوئی مطالبہ کر رہی ہوں۔ ایسی خواتین یہ دھیان بھی رکھتی ہیں کہ ان کے طریقہ کار سے مردوں کو کام کے دوران کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔

خود انحصاری اور ثقافتی تبدیلی

Teresa Ganzon کا بینک دیہات میں خواتین کو چھوٹے قرضے جاری کرتا ہے اورخواتین کو یہ موقع بھی فراہم کرتا ہےکہ وہ اپنا کوئی نہ کوئی کاروبار شروع کرسکیں۔ یوں خواتین میں نہ صرف خود انحصاری کی سوچ پیدا ہوتی ہے بلکہ ان میں احساس ذمہ داری بھی بڑھتا ہے۔ اس طرح خود انحصاری کے ساتھ ساتھ ان میں ذاتی اعتماد بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ Teresaکہتی ہیں کہ خواتین میں یہی خود اعتمادی ثقافتی تبدیلی کے لیےبہت اہم ہے۔ ان کے خیال میں اگر خواتین کو زیادہ مواقع دئیے جائیں تو وہ اس سے فائدہ حاصل کر سکتی ہیں اور پر اعتماد بھی ہو سکتی ہیں۔ اس طرح ان کے بارے میں مردوں کا نقطہ نظر بھی بدل جاتا ہے۔اور وہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ انہی خواتین کو ایک نئی نظر سے دیکھیں۔

تجربات کا تبادلہ

Teresa Genzon ہنوئے کے عالمی فورم میں اس لیے شرکت کر رہی ہیں کہ وہ چاہتی ہیں کہ دوسری ایشیائی خواتین کے ساتھ تجربات کا تبادلہ کرسکیں۔ اس فورم میں زیادہ تر شرکاء کا تعلق کاروباری دنیا سے ہے۔ لیکن چند مندوبین ماہرین کی تنظیموں کی نمائندگی بھی کر رہی ہیں۔

Bettina Schleicher جرمنی کی ایک ایسی تنظیم کی سربراہ ہیں جس کا نام Business and Professional Women Germany ہے۔ ان کی اس کانفرنس میں شرکت کی وجہ ایشیائی خواتین سے ملاقات اور براعظم ایشیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کوئی نیا کاروبار شروع کرنے والے ہیں تو اس کے لیے اہم ہے کہ آپ وہاں کے لوگوں کی سوچ سے واقف ہوں۔

Vietnam Textilfabrik in Hanoi Näherin
ہنوئے میں ملبوسات کی ایک فیکٹری میں سلائی کرنے والی ایک ویت نامی خاتونتصویر: AP

اس فورم میں ایشیا سے آئی ہوئی بےشمارکمپنیوں کی خواتین سے ملاقات ممکن ہے۔ Bettina کے مطابق کسی بھی نئے کاروبار کو شروع کرنے سے پہلے اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہے۔

مربوط رابطے

بیٹینا شلائیشر کے بقول آج کا دور مربوط رابطوں کا دور ہے اور قومی سرحدوں سے با لا تر رابطے لازمی ہو چکے ہیں۔ اسی لئے ممتاز کاروباری خواتین کو عالمگیر نوعیت کے ڈھانچوں پربھی توجہ دیناہو گی۔

"اگر آپ کسی نمایاں پوزیشن پر کام کر رہی ہیں تو آپ کوعالمی سوچ بھی اپناناہوگی۔ بین الاقوامی معیشت انتہائی حد تک مربوط ہو چکی ہے اور اب ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھناہوگا کہ ہمارے فیصلوں کا اثر باقی ممالک پر بھی پڑے گا۔ اس لئےکاروباری دنیا سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ہم یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ عالمی رجحانات اور پھیلتی ہوئی منڈیوں کومد نظر رکھتے ہوئے اپنے کاروبار ی فیصلے کریں۔"

خواتین کے اس عالمی فورم کی بانی Irene Natividad کو یقین ہے کہ 21 ویں صدی میں مجموعی بین الاقوامی اقتصادی ترقی میں خواتین کا کردارانتہائی نمایاں ہو گا۔