ویڈیو کی بات کی تو تمام چینل میوٹ ہو گئے
8 جولائی 2019پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیو میں، جہاں نواز شریف کو سزا دینے والے جج صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کس طرح سے عدالتی نظام کو شکنجے میں لیا گیا ہے وہاں کچھ اور باتیں بھی واضح ہوئیں۔
پارٹی کی تمام تر سینیئر قیادت کے ہوتے ہوئے مریم نواز کا اس پریس کانفرنس سے خطاب کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف کے بیانیے کی اصل وارث مریم نواز ہیں۔ مفاہمت کے بیانیے کا دور بیت گیا ہے۔
اس پریس کانفرنس کی ایک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ پریس کانفرنس تمام چینلوں پر براہ راست دکھائی گئی جو کہ اس ''کنٹرولڈ میڈیا‘‘ کے ماحول میں اچھنبے کی بات تھی۔ حالانکہ مریم نواز نے اس خدشے کا اظہار ایک ٹوئیٹ میں پریس کانفرنس سے پہلے کیا تھا۔
مریم نواز نے پریس کانفرنس میں ستر سال کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے سول سپریمیسی کے بیانیے پر پوری شدت سے قائم نظر آئیں۔ مریم نواز نے واضح کیا کہ وہ کسی ادارے کے خلاف نہیں۔ اس بات سے وہ تاثر بھی دم توڑ گیا کہ یہ مہم دفاعی اداروں کے خلاف ہے۔ ان کا صرف ایک نکاتی مطالبہ تھا کہ اگر نواز شریف کو کرپشن کے بے بنیاد الزام میں سزا سنائی ہے تو اس ویڈیو میں جج صاحب کے انکشاف کے بعد اب اس سزا کو ختم ہونا چاہیے۔ ظلم کی اس روایت کو بدلنا چاہیے۔
اب بات ہو جائے اس مبینہ ویڈیو کی جس میں نواز شریف کو سزا دینے والے جج صاحب اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کس طرح ان کی ذاتی زندگی کے ایک پوشیدہ گوشے کی ویڈیو دکھا کر ان کو بلیک میل کیا گیا اور کس طرح انہوں نے نواز شریف کے خلاف وہ غلط فیصلہ تحریر کیا۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ نواز شریف پر ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی ہے۔ یہ سب ڈھکوسلہ ان کو سزا دینے کی خاطر تھا۔ حکومتی وزراء اور چند منتخب اینکرز کی طرف سے اس ویڈیو کو فراڈ قرار دیا گیا اور اس کے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا گیا۔ اگلے ہی دن جج صاحب کی طرف سے ایک تردیدی پریس ریلیز بھی جاری کی گئی مگر اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے رہے کہ کیا یہ پریس ریلیز کسی دباؤ کا نتیجہ ہے؟ اس تردید میں بھی انہوں نے ناصر بٹ سے ملاقاتوں کا اعتراف کیا ہے اور اتنی تردید کی ہے کہ ان کی باتوں کو موڑ توڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ مبینہ ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ پھر بھی ضرور ہونا چاہیے اور اگر اس میں ویڈیو کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے تو یہ اس نظام عدل کے منہ پر ایک طمانچہ ہوگا۔ اس ایک ویڈیو سے ستر سال کا وہ سچ عیاں ہو گا جو ہمیشہ حیلے بہانوں سے چھپایا گیا۔ اس ایک ویڈیو سے لوگوں کی ذاتی زندگی کی ریکارڈنگ کر کے ان کو بلیک میل کرنےکی روایت ختم ہو گی۔ اس ایک ویڈیو سے تاریخ بدل سکتی ہے۔ یقین جانیے اب بھی ادارے بات سمجھ جائیں تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
منڈی بہاو الدین جلسہ مسلم لیگ ن کی اور مریم نواز کی بہت بڑی کامیابی تھا۔ وہ سارے ورکرز جو پارٹی کو نواز شریف کی علالت کے حوالے سے خاموش رہنے پر طعنے دے رہے تھے ان کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ پنجاب اور جی ٹی روڈ نے ایک بار پھر اپنے دل ن لیگ کے لیے کھول کر دکھا دیے۔ ڈھائی گھنٹے کا سفر قریبا آٹھ گھنٹے میں طے ہوا۔ اس جلسے کے موقع پر حکومت کے روایتی ہتھکنڈے سامنے آئے۔ کبھی گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملی اور کبھی اس گراؤنڈ میں پانی بھر دیا گیا۔ چینلوں نے پنجاب میں ہونے والی اس مزاحمتی جلسے کی کوریج سے زیادہ اہمیت لکس اسٹائل ایوارڈ اور مراد سعید کے اس بیان کو دی کہ مریم نواز نے ٹول ٹیکس نہیں دیا۔ جلسے میں مریم نواز کی تقریر دکھاتے ہوئے جہاں مریم نواز نے جج کی ویڈیو کی بات کی تمام کے تمام چینل میوٹ ہو گئے۔ اسی دوران پاکستان کے تین معروف صحافیوں عمر چیمہ، اعزاز سید اور وجیہ ثانی کے ٹویٹر اکاؤنٹس اس جلسے کے دوران ڈی اکٹیوِیٹ ہو گئے یا کروا دیے گئے۔ یاد رہے تین صحافی اس ویڈیو کے حوالےسب سے زیادہ بات کر رہے تھے۔
جلسے کا اثر کم دکھانے کے لیے صدیوں پرانے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ حاظرین کی درست تعداد کی ویڈیو نہیں بنائی گئی اور اگر بنائی گئی تو اس طرح کہ لوگوں کی تعداد بہت کم لگے۔ آڈیو کوالٹی میں خلل ڈالا گیا۔ جلسہ گاہ میں اسٹیج نہیں بننے دیا گیا۔ جلسے کے بعد من پسند تجزیہ کاروں سے من پسند تجزیات لیے گئے۔ یہ پرانے دور کے ہتھکنڈے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ہر ویڈیو لوگوں کی ہتھیلی تک پہنچ جاتی ہے۔ ان بوسیدہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے والے لوگ اب بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ نئے دور کے نئے میڈیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
مریم نواز نے جلسے میں ''گو سیلکیٹڈ گو‘‘ کے نعرے بھی لگوائے۔ یہ جانتےبوجھتے ہوئے کہ یہ طنز عمران خان پر نہیں بلکہ ان کے''سیلیکٹرز‘‘ پر ہے۔
کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے۔ ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے آئندہ دنوں میں اس ملک کی سیاست میں وہ تہلکہ مچے گا، جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بس دعا کیجئے کہ مریم نواز اس سچ کو بولنے بعد کسی حادثے سے دوچار نہ ہوں، اس لیے کہ ایسے پراسرار حادثوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔