ویکسین کی تیاری کا ضابطہ کار، ڈبلیو ایچ او کا نیا نظریہ
13 نومبر 2022ڈبلیو ایچ او کے مطابق کہ ان فیصلوں کو کہ کون سی ویکسین کہاں تیار کی جاتی ہے یا کی جانا چاہیے، مارکیٹ فورسز یعنی قیمتوں اور ترسیل کو کنڑول کرنے والی قووتوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ڈبیلو ایچ او کا کہنا ہے کہ ویکسین کو عوام یا تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کا ذریعہ سمجھنا چاہیے۔
یاد رہے کہ ہر سال مختلف ویکسین متعدد بیماریوں کے خلاف لاکھوں جانیں بچاتی ہیں۔ ویکسین کی بین الاقوامی منڈی کے بارے میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ ویکسین کی تیاری اور اس کی تقسیم کے معاملے میں بڑے پیمانے پر منافع کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے اور اس کے سبب دنیا بھر میں بہت سے انسان زندگی بچانے والی جابس یا ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں۔
امریکا کورونا ویکسین کی کوششوں میں ڈبلیو ایچ او کا ساتھ نہیں دے گا
ڈبیلو ایچ اہ کے سربراہ کے خدشات
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس گیبریاسس نے اس مذکورہ رپورٹ کے تعارف میں ہی ویکسین کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''دنیا بھر میں بہت سارے لوگوں کی اب بھی اُن ویکسین تک رسائی نہیں ہے جن کی انہیں ضرورت ہے، ہر سال تقریباً 20 ملین شیر خوار بچوں کو ویکسین نہیں مل پاتی۔‘‘
دنیا بھر کے ممالک نے گزشتہ سال اس بارے میں ایک ہدف پر اتفاق کیا تھا، جس کے تحت دنیا میں سب کے لیے ویکسین کی وسیع رینج تک رسائی کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس طرح موجودہ دہائی کے آخر تک 50 ملین زندگیوں کو بچانا ممکن ہو سکتا ہے۔
لیکن ڈبلیو ایچ او کی ویکسین کے شعبے کی سربراہ کیٹ او برائن نے کہا ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک نئے طرز کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں زندگی بچانے والی صحت عامہ کے لیے اہم ادویات کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں شرائط طے کرنے پر زور دیا اور کہا، ''حکومتوں کو اس معاملے میں سنجیدگی سے دلچسپی لینا چاہیے یعنی محض منافع کی خاطر تیار کیے جانے والے صحت عامہ کے ساز وسامان کی مخالفت بہت ضروری ہے۔‘‘
کورونا ویکسین کے ليے 7.4 بلین یورو
ویکسین کے کاروبار کا حجم
حال ہی میں سامنے آنے والی ڈبلیو ایچ او کی اس رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ گزشتہ برس یعنی 2021 ء میں ویکسین کی قریب 16 بلین خوراکیں، جن کی مالیت قریب 141 بلین ڈالر بنتی ہے، مارکیٹ میں فراہم کی گئی۔ 2019 ء کے مقابلے میں یہ حجم تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ نئی کووڈ 19 ویکسین بنی۔ ماہرین کے مطابق جب کم تجارتی قیمت والے حفاظتی ٹیکوں کی بات آتی ہے تو سرمایہ کاری پیچھے رہ جاتی ہے یا بالکل ہی غائب ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہیضہ، ٹائیفائیڈ، منکی پوکس اور ایبولا۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا انتباہی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور جن کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ ان کی ویکسین یا ادویات کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے۔
چند ممالک میں مُٹھی بھر ادویات ساز کمپنیاں سب سے زیادہ مستعمل ویکسین تیار کرنے کی ذمہ دار ہیں اور یہ عمل غریب علاقوں میں ویکسین کی خریداری اور رسائی کے سلسلے کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ ڈبیلو ایچ او کی تازہ ترین رپورٹ میں مارکیٹ کی دلچسپی اور منافع سے قطع نظر، ویکسین کی منصفانہ اور مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے عوامی سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ک م / ع ا (اے ایف پی)