’يورپ جنت نہيں‘
30 جون 2016افريقی ملک سينيگال سے تعلق رکھنے والے مانتينے ديئيے نے يورپی ملک اسپين ميں ايک غير قانونی تارک وطن کی حيثيت سے تقريباً گيارہ برس گزارنے کے بعد بالآخر واپسی کا فيصلہ کر لیا ہے۔ مانتان دیئے رضاکارانہ طور پر واپسی کی ايک اسکيم کی مدد سے قريب چھ ماہ قبل اپنے آبائی ملک سينيگال واپس پہنچا۔ معمولی سی مالی امداد کے ساتھ اس نے دارالحکومت ڈاکار ميں اپنا چھوٹا سا کاروبار شروع کر دیا ہے۔
ڈی ڈبليو سے گفتگو کرتے ہوئے اس کا کہنا ہے کہ يہ اس کی زندگی کا سب سے بہترين فيصلہ تھا۔ اس نے کہا، ’’ميں اب کبھی واپس نہيں جاؤں گا۔‘‘ چھياليس سالہ مانتان دیئے کے بقول يورپ ميں گزارا ہر دن کسی اذيت سے کم نہ تھا وہ اپنے اہل خانہ کو گيارہ برس کے ليے چھوڑ کر جانے پر پچھتاتا ہے۔ اس نے مزيد کہا، ’’ميں يورپ ميں وہ نہ کر سکا جو ميں سوچ کر گيا تھا۔‘‘
مانتان دیئے نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ وہ سن 2005 ميں روزگار کی تلاش ميں اپنے اہل خانہ کو بتائے بغير يورپ گيا تھا۔ وہ يہ سمجھتا تھا کہ سينيگال ميں ايک نوجوان کے ليے يورپ تک کی کشتی کا سفر مستقبل کی خوشحالی کا واحد ذريعہ ہے۔ اس نے بتايا، ’’ميں مانتا تھا کہ يورپ جنت ہے کيونکہ وہاں جب آپ کام کاج کرتے ہيں تو اُسے درست اور جائز معاوضہ ملتا ہے۔‘‘ اُس نے مزید کہا کہ جب وہ یورپ پہنچا تھا تو مالی بحران جاری تھا اور حالات بالکل سازگار نہيں تھے۔ دیئے کے مطابق کام بھی کم تھا اور وہ غير قانونی بھی تھا۔
مانتان دیئے نے يورپ پہنچنے کے خواہشمند ہر شخص سے مخاطب ہو کر يہ کہا ہے کہ وہ اپنے ہی ممالک ميں روگار تلاش کریں کیونکہ يورپ ميں گزر بسر اتنی مشکل ہے کہ وہ اِس کو سوچ بھی نہيں سکتے۔
اسپين ميں جب دیئے نے ايک دن يہ فيصلہ کر ہی ليا کہ وہ سينيگال واپس جانا چاہتا ہے، تو اس نے سينگالی حکومت اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے زير انتظام رضاکارانہ واپسی کے ايک پروگرام چلانے والوں سے رجوع کيا، جنہوں نے اس کی واپسی کو ممکن بنايا۔
آئی او ايم کے سينيگال ميں کنٹری ڈائريکٹر جو لِنڈ رابرٹس سينے کے بقول پچھلے چند مہينوں ميں اٹلی پہنچنے والے سينيگالی مہاجرين کی تعداد ميں اضافہ ديکھا گيا ہے اور يہ سلسلہ سن 2014 کے اواخر سے شروع ہوا تھا۔ انہوں نے بتايا کہ سال رواں کے دوران اب تک قريب ڈھائی ہزار سينيگالی مہاجرين کو اطالوی حراستی مراکز تک پہنچايا گيا ہے۔ آئی او ايم کے اہلکار نے مزید کہا کہ ہزاروں دوسرے سینیگالی افراد ليبيا ہی ميں اپنا سفر ختم کر کے اب لوٹ جانے میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔
رابرٹس سينے نے البتہ واضح کيا کہ واپسی پر ان کے آبائی ممالک ميں ان مہاجرين کے ليے روزگار کے ساتھ ساتھ مالی مراعات خاصی کم ہيں۔ ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ افریقی ملک اپنے نوجوانوں کے ليے تربيت فراہم کرتے ہوئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دیں۔