ٹرمپ امریکی ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں اضافے کے خواہش مند
24 فروری 2017امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعہ چوبیس فروری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں جمعرات تئیس فروری کی رات کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے (ذخیرے کے) حوالے سے امریکا بین الاقوامی سطح پر سب سے آگے رہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخاب کے بعد لیکن اپنی صدارتی حلف برداری سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا تھا، ’’امریکا کو اپنی ایٹمی صلاحیت میں بہت زیادہ اضافہ کرنا ہو گا، اس وقت تک جب تک کہ دنیا جوہری اسلحے کے حوالے سے ہوش میں نہیں آ جاتی۔‘‘
ٹرمپ کے ’زہریلے بیانات نے دنیا کو تاریک تر‘ کر دیا، ایمنسٹی
اس بارے میں ایک سوال کے جواب میں روئٹرز کے ساتھ انٹرویو میں بطور صدر ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق پہلی بار اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ’’میں دیکھنا تو یہ چاہوں گا کہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہو۔ لیکن مجھے اس بات پر بھی تشویش ہے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں سے متعلق اپنی صلاحیتوں میں امریکا پیچھے رہ گیا ہے۔‘‘
اسی انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ شمالی کوریا کی وجہ سے امریکا کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے لیکن ’اگر بیجنگ میں چینی حکومت چاہے‘ تو وہ اس مسئلے کو ’بڑی آسانی سے حل‘ کرا سکتی ہے۔ اپنی اس سوچ کی وضاحت کرتے ہوئے ریپبلکن ٹرمپ نے روئٹرز کو بتایا کہ کمیونسٹ شمالی کوریا کے بڑے بڑے اقدامات مسلسل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں اور بیجنگ اگر چاہے تو پیونگ یانگ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اسے ایسے اقدامات سے روک سکتا ہے۔
امریکی صدر نے اپنے اسی انٹرویو میں یورپی یونین کے بارے میں بھی کھل کر اظہار خیال کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ درجنوں یورپی ملکوں کے اتحاد اور ایک علاقائی بلاک کے طور پر وہ یورپی یونین کی ’مکمل حمایت‘ کرتے ہیں۔
’ٹرمپ ہمارے صدر نہیں‘، امریکا میں مظاہرے
میڈیا، امریکی عوام کا دشمن ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
اس انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے اپنی صدارتی حیثیت میں پہلی بار مشرق وسطیٰ میں فلسطینی اسرائیلی تنازعے کے تصفیے کے لیے ’دو ریاستی حل‘ کی بھی حمایت کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ایسے ہر ممکنہ حل پر مطمئن ہوں گے، جس تک اس تنازعے کے دونوں فریق مل کر پہنچیں گے۔
جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بنے ہیں، تب سے اور اس سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی انہوں نے بار بار کہا تھا کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دائرہء کار میں رہتے ہوئے امریکا اس اتحاد کے لیے جتنی رقوم ادا کرتا ہے، وہ باقی تمام ملکوں سے زیادہ ہیں اور کئی رکن ملک ایسے بھی ہیں، جو اس تنظیم میں دفاعی بجٹ کے طور پر اپنے حصے کی طے شدہ رقوم بھی طویل عرصے سے پوری ادا نہیں کرتے۔
اس تناظر میں ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ نئی امریکی انتظامیہ کی طرف سے نیٹو میں واشنگٹن کے اتحادی ملکوں پر زیادہ رقوم کی ادائیگی کے لیے جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اس کا مثبت نتیجہ نکلے گا اور نیٹو کے اخراجات کے سلسلے میں امریکا پر پڑنے والا مالی بوجھ بھی مستقبل میں کم ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں ٹرمپ نے کہا، ’’انہیں (نیٹو کے رکن ممالک کو) ہمیں بہت بڑی بڑی رقوم ادا کرنا ہیں۔‘‘