ٹرمپ انتظامیہ نے ہم سے دھوکا کیا، تارکین وطن
6 ستمبر 2017یہ وہ افراد ہیں، جو انتہائی کم عمری میں غیرقانونی طور پر امریکا لائے گئے اور انہیں اپنے آبائی ملک سے متعلق کچھ معلوم تک نہیں ہے۔ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے ان تارکین وطن کو امریکا میں قیام کے لیے تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ایک پروگرام ترتیب دیا گیا تھا، تاہم صدر ٹرمپ نے DACA نامی یہ استثنائی پروگرام ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
تارکین وطن، مسلح گروہوں اور ٹرمپ کے احکامات کے درمیان پھنسے ہوئے
امریکا میں لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن جاری
منگل کے روز ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اس اعلان کو پورے ملک میں ایک دھچکے کی طرح محسوس کیا گیا۔ یونیورسٹی آف وایومنگ میں ماسٹرز کی تعلیم حاصل کرنے والے 27 سالہ خوزے ریواس کے مطابق، ’’ہم دل، دماغ اور روح سے امریکی ہیں۔ بس ہمارے پاس ایسا پرچہ نہیں ہے، جس پر لکھا ہو کہ ہم امریکی ہیں۔‘‘
ڈیفرڈ ایکشن فار چائلڈہوڈ ارائیول پروگرام یا DACA کے خاتمے کے اعلان کو متاثرہ تارکین وطن ’دھوکا دینے کے مترادف‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس پروگرام کے خاتمے کے حامی سابق صدر باراک اوباما کے اس پروگرام کو انتظامی طاقت کا ’غیرآئینی استعمال‘ قرار دیتے آئے ہیں۔
اٹارنی جنرل جیف سیشنز کا اس پروگرام کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ پروگرام انتظامی اختیارات کے اعتبار سے حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے، جس کا دفاع محکمہء انصاف نہیں کر سکتا۔
ٹرمپ انتظامیہ اور DACA پر نکتہ چینوں کا موقف ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کے مستقبل سے متعلق کسی فیصلے کا اختیار ملکی پارلیمان کو ہے اور کسی صدر کو انتظامی اختیارات کا استعمال کر کے ایسا کوئی پروگرام مرتب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
منگل کی شب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اگر امریکی کانگریس اس معاملے میں کوئی راستہ نہیں اپناتی، تو وہ خود اس معاملے میں پڑ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں کہا، ’’کانگریس کے پاس اب چھ ماہ ہیں کہ وہ DACA کو قانونی جواز مہیا کرے، جو اوباما انتظامیہ نہیں کر سکی، اگر کانگریس نہیں کرتی، تو میں اس معاملے پر نظرثانی کروں گا۔‘‘