ٹرمپ: مسلمان ملکوں کے شہریوں پر پابندی، دنیا بھر میں مظاہرے
30 جنوری 2017نئے امریکی صدر کے لیے اُن کے جو فیصلے ایک آزمائش کی شکل اختیار کر گئے ہیں، وہ اُنہوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے متعارف کروائے تھے۔ اس صدارتی فرمان پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے بیرونی دُنیا سے تمام مہاجرین پر کم از کم ایک سو بیس دنوں کے لیے اور شامی مہاجرین پر غیر معینہ مدت کے لیے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سات مسلمان ملکوں ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے عام شہریوں پر نوّے روز کے لیے امریکا کے سفر پر پابندی عائد کر دی تھی۔
خود ٹرمپ کے حلیفوں نے بھی ان پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، سرحدی گارڈز ابہام کا شکار ہو گئے تھے اور ڈیموکریٹس کو ٹرمپ کو ہدفِ تنقید بنانے کا موقع ہاتھ آ گیا تھا۔ خود ری پبلکنز کی صفوں میں بھی بے چینی نظر آنے لگی تھی۔
چار وفاقی ججوں نے مہاجرین کی جبری واپسی روکنے کے اقدامات کیے جبکہ تین سو کے قریب افراد کو دُنیا بھر میں امریکا جانے سے روکا یا حراست میں لیا گیا اور امریکا میں شہری حقوق کے لیے سرگرم وکلاء نے خبردار کیا ہے کہ یہ معاملہ ملکی سپریم کورٹ تک بھی جا سکتا ہے۔
اتوار کو امریکا بھر کے اہم ہوائی اڈوں پر مسلسل دوسرے روز بھی مظاہرین جمع ہوئے اور اُنہوں نے ٹرمپ کے فرمان سے متاثر ہونے والے تارکینِ وطن اور مہاجرین کی حمایت میں نعرے لگائے۔
واشنگٹن ڈی سی کے قریب ڈَلیس ایئرپورٹ پر پہنچنے والے ایک عراقی نژاد اڑتیس سالہ امریکی شہری سیف رحمان کو اضافی اسکریننگ کے عمل سے گزارا گیا۔ بعد ازاں اس شہری نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا:’’مَیں بس یہ امید کرتا ہوں کہ ایک ملک کے طور پر اپنی اَقدار کو برقرار رکھتے ہوئے ہم یہ مشکل وقت گزار جائیں۔‘‘
امریکا کے اہم ایئر پورٹس پر وکلاء نے اپنے مترجمین کے ہمراہ دکانیں سجا لیں اور اُن افراد کی رہائی کے لیے کوششیں شروع کر دیں، جنہیں امریکا پہنچنے پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ اِن میں سے کئی اُس وقت طیارے پر امریکا کی جانب محوِ سفر تھے، جب ٹرمپ نے گزشتہ جمعے کے روز ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے۔
قانونی ویزے کے حامل ہونے کے باوجود کم از کم ایک سو نو افراد کو امریکا پہنچنے پر حراست میں لے لیا گیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اِن میں سے مزید کتنے بدستور زیرِ حراست ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے سرکردہ ارکان اِن متاثرین کی تعداد کم کر کے ’محض چند درجن‘ بتا رہے ہیں جبکہ کینیڈا نے اس پابندی کی وجہ سے اپنے ہاں پھنس جانے والے مسافروں کو عارضی رہائش فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ بیروت ایئر پورٹ کے ایک اہلکار کے مطابق چھ شامی باشندوں کو فلاڈیلفیا انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے واپس لبنان بھیج دیا گیا۔
ہر طرف سے تنقید شروع ہو جانے پر وائٹ ہاؤس سے یہ بیان جاری کیا کہ یہ پابندی مسلمانوں پر نہیں ہے اور یہ کہ میڈیا اس معاملے کو اُچھال رہا ہے۔ بیان کے مطابق ’معاملہ مذہب کا نہیں بلکہ دہشت گردی اور اپنے ملک کو محفوظ بنانے کا ہے، میڈیا غلط رپورٹنگ کر رہا ہے‘۔
نیویارک میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں پولیس کے اندازے کے مطابق دَس ہزار افراد نے شرکت کی اور ’مہاجرین کو خوش آمدید‘ اور ہولوکاسٹ یعنی جرمنی میں یہودیوں کے قتلِ عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’نیور اَگین‘ یا ’پھر کبھی نہیں‘ کے نعرے لگائے۔ مین ہیٹن کے علاقے بیٹری پارک میں منعقدہ اس مظاہرے میں شریک ڈیموکریٹک سینیٹر چارلس شومر نے مجمع سے خطاب میں کہا کہ ٹرمپ کے احکامات ’غیرامریکی‘ ہیں اور ملکی اقدار کے منافی ہیں۔ اُن کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’ہم یہاں کئی افراد کی زندگی اور موت کی بات کر رہے ہیں۔ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک ان خوف ناک احکامات کا خاتمہ نہ ہو جائے۔‘‘ اس مظاہرے کے شرکاء نے بعد میں نیویارک میں امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے دفتر کی جانب مارچ بھی کیا۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے اُسی روز یہ فرمان جاری کیا، جس روز ہولوکاسٹ میموریل ڈے منایا جا رہا تھا۔ نیویارک سٹی کے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کی وجہ سے ہر امریکی شہر کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک لہر سرایت کر جانی چاہیے‘۔ دارالحکومت واشنگٹن اور دیگر بڑے شہروں مثلاً لاس اینجلس، ڈینور اور بوسٹن میں بھی ہزاروں مظاہرین احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ تہران اور قاہرہ سے لے کر اہم یورپی ممالک تک کی جانب سے بھی ٹرمپ کے ان احکامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔