ٹرمپ کی امیگریشن پابندیوں کے حکم نامے کا مسودہ
20 فروری 2017صدر ٹرمپ کے اس نئے حکم نامے کے مسودے میں بھی سات مسلم اکثریتی ممالک عراق، ایران، لیبیا، شام، یمن، سوڈان اور صومالیہ کے شہریوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا تاہم کہنا ہے کہ اس مسودے میں پابندیوں کے شکار ان ممالک کے ایسے شہریوں کو جن کے پاس امریکا کا ویزا ہے اور وہ اب تک استعمال نہیں ہوا ہے، امریکا میں داخلے کی اجازت ہو گی۔
اس کے علاوہ گرین کارڈز ہولڈرز اور دوہری شہریت کے حامل افراد کو بھی ان پابندیوں سے مبرا کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وفاقی عدالتوں کی جانب سے صدر ٹرمپ کے اصل حکم نامے کو معطل کر دیے جانے کے بعد اس نئے حکم نامے میں کچھ قانونی پہلوؤں کو نظر میں رکھا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس مسودے میں حکام کو مہاجرین کی نئی ویزا درخواستیں قبول کرتے ہوئے، شامی شہریوں کو نشانہ بنانے، یا ان کی درخواستیں مسترد کرنے سے متعلق بھی ہدایات نہیں دی گئی ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس امریکی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دستخطوں تک اس مسودے میں مزید کچھ تبدیلیاں آ سکتی ہیں، تاہم جلد ہی یہ مسودہ باقاعدہ طور پر پیش کر دیا جائے گا۔
اس نئے حکم نامے سے متعلق جب وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز سے پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ایک مسودہ عہدیداروں میں تقسیم کیا گیا ہے، تاہم اس حوالے سے حتمی مسودہ جلد ہی جاری کر دیا جائے گا۔ امریکی محکمے ہوم لینڈ سکیورٹی کی جانب سے فی الحال اس موضوع پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا گیا ہے۔
دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسوں کے خلاف اس ویک اینڈ پر بھی امریکا میں متعدد مقامات پر مظاہرے جاری رہے۔ اس سلسلے میں اتوار کے روز ایک بڑا اجتماع نیویارک شہر کے مشہور ٹائم اسکوائر پر ہوا، جس میں ’’آئی ایم آ مسلم ٹو‘‘ یعن ’’میں بھی ایک مسلمان ہوں‘‘ کے نعرے کے ساتھ ایک ہزار سے زائد افراد شامل ہوئے۔ اس موقع پر بعض افراد نے امریکی پرچم اٹھا رکھے تھے، جب کہ کچھ نے پلے کارڈز پکڑ رکھے تھے، جن پر ’’نو مسلم بین‘ یعنی ’’مسلمانوں پر پابندی نہیں‘‘ درج تھا۔ اس ریلی سے نیویارک کے میئر اور ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما بل ڈے بلاسیو نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا، ’’امریکا ایک ایسا ملک ہے، جو تمام اعتقادات اور مذاہب کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔‘‘