ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کا نتیجہ ’مسلمانوں سے متعلق شبہات‘
31 جنوری 2017منگل کے روز اپنے ایک بیان میں یوسف کلا نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی مسلمانوں کے خلاف ’شکوک و شبہات‘ میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ جمعے کو ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے سات مسلم ممالک کے شہریوں کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ پابندی ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں پر عائد کی گئی ہے، جب کہ اس عارضی پابندی کے ذریعے ان ممالک کے شہریوں کو ویزوں کا اجراء بھی روک دیا گیا ہے۔ صدارتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اگلے نوے روز تک ان سات ممالک کے شہری امریکا میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
انڈونیشیا کے نائب صدر یوسف کلا نے مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اگرچہ اس پالیسی سے انڈونیشیا کے شہری براہ راست متاثر نہیں ہوں گے، تاہم مسلمانوں کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ ان نئی امریکی پابندیوں پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کے ساتھ ساتھ امریکا کے اندر بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ امریکی مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں بنیادی امریکی اقدار کے منافی ہیں۔
انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک ہے اور امریکا کی جانب سے پابندیوں کی اس فہرست میں انڈونیشیا کو شامل نہیں کیا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ تاہم یہ عندیہ دے چکی ہے کہ اس فہرست کو آئندہ وسعت دی جا سکتی ہے۔