ٹرمپ کی سخت مہاجر پالیسی: اٹھارہ سو خاندان بچھڑ گئے
9 جون 2018امریکا کے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت سرحدی پالیسیوں کے نتیجے میں اکتوبر 2016ء سے رواں برس فروری تک قریب ایک ہزار آٹھ سو خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونا پڑا ہے۔ شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس سرکاری اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ تارکین وطن کے خاندان میں علیحدگی میں اضافے کی وجہ موجودہ انتظامیہ کی سخت پالیسیاں ہیں۔
امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے گزشتہ ماہ ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین کے خلاف سخت پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس اقدام سے زیادہ تر پناہ گزینوں کے بچے ہی متاثر ہوئے ہیں کیونکہ ان کو اپنے والدین سے الگ کر دیا گیا ہے۔
اسی تناظر میں گزشتہ ماہ ’مئی کی چھ سے انیس تاریخ کے دوران 658 بچوں کو 638 والدین سے الگ کیا گیا۔ امریکی کانگریس کو ان اعداد و شمار سے کسٹم اور سرحدی تحفظ کے ادارے (سی بی پی) کے ایک اہلکار نے آگاہ کیا تھا۔ یوں بچھڑنے والے خاندانوں کی کل تعداد قریب 2400 ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ اور ڈیموکریٹ قانون سازوں کی جانب سے سرحد پر مہاجرین کے اہل خانہ کو الگ کرنے کے عمل کی شدید مذمت بھی سامنے آئی ہے۔ تاہم امریکی انتظامیہ نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئےکہا ہے کہ بچوں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے ایک واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ ’خاندانی صورتحال سے قطع نظر غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔
امریکی اہلکار نے روئٹرز کو مزید بتایا کہ زیادہ تر خاندانوں کی علیحدگی کی کارروائی طبی ضروریات یا پھر حفاظتی وجوہات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات انسانی اسمگلنگ کے گروہ خاص منصوبے کے طور پر بچوں اور والدین کو ایک ساتھ سرحد پار کرنے کی کوشش کرواتے ہیں۔
ع آ / ع ب (روئٹرز)