ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندی اور یورپی رہنماؤں کا ردعمل
3 فروری 2017نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات مسلمان ممالک کے شہریوں کی امریکا میں داخلے پر پابندی کے خلاف جرمن اور یورپی رہنماؤں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس حوالے سے تین سوال اور تین جواب۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر سفری پابندی پر جرمن رہنماؤں کا رد عمل کیا ہے؟
جرمن رہنماؤں کا رد عمل کافی سخت ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ اپنی جگہ مگر عمومی خدشات پر مخصوص علاقوں اور مخصوص عقیدے کے حامل لوگوں کے خلاف یہ پابندیاں غیر منصفانہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہاجرین سے متعلق جنیوا کنونشن بین الاقوامی برادری پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی انسانی بنیادوں پر مدد کرے۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فونک بات چیت میں بھی اس پالیسی پر کار بند رہنے پر زور دیا۔ دوسری طرف جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے نئے سربراہ اور اگلے عام انتخابات میں چانسلر انگیلا میرکل کے حریف امیدوار مارٹن شُلس نے بھی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں ’غیر امریکی‘ قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ یورپ کو ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور لبرل اَقدار کا دفاع کرنا چاہیے۔
یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کے رہنما کیا کہہ رہے ہیں اس بارے میں؟
یورپی یونین اور اکثر یورپی ممالک نے امریکی صدر کے اس فیصلے کی مخالفت ہی کی ہے مثلاﹰ سویڈن کے وزیراعظم اسٹیفان لووین نے مہاجرین اور سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر سفری پابندیوں کو مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے اُلٹ اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ ناورے کی وزیراعظم ایرنا سول برگ کا کہنا تھا کہ مہاجرین اور دیگر افراد کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جانا چاہیے اور ان کے ساتھ مذہب، قومیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جانا چاہیے۔ لکسمبرگ کے وزیر خارجہ ژاں ایسل بورن نے بھی سفری پابندیوں کے ممکنہ منفری اثرات سے خبردار کیا اور کہا کہ امریکی صدر اس طرح مسلمان دنیا کو اچھے اور بُرے میں تقسیم کر رہے ہیں۔ لندن کے میئر صادق خان نے اس فیصلے کو شرم ناک اور ظالمانہ قرار دیا۔ جبکہ برطانوی وزیر خارجہ بورِس جانسن نے اسے تقسیم ڈالنے والا اور غلط فیصلہ قرار دیا۔ یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک تو ٹرمپ کی پالیسیوں کے سبب امریکا کو یورپی یونین کے لیے ’’خطرہ‘‘ بھی قرار دے چکے ہیں۔
کیا مسلمان ملکوں کے خلاف ان سفری پابندیوں کی وجہ سے جرمنی یا یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے بھی کوئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں؟
امریکی صدر کے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرنے کے بعد جرمنی نے کہا تھا کہ وہ اُن جرمن شہریوں پر اس فیصلے کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے جو پابندیوں کی زد میں آنے والے سات مسلمان ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری طرف چونکہ ابھی تک انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو چھوڑ کر زیادہ تر یورپی رہنماؤں نے امریکی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ہی بیانات دیے ہیں، اس لیے بظاہر اس کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے کہ جرمنی میں یا دیگر یورپی ملکوں میں آباد مسلمانوں کے لیے اس طرح کے امریکی فیصلے کسی مشکل کا سبب بنیں گے۔ شاید آئندہ ایک دو ہفتوں میں صورتِ حال مزید واضح ہو جائے گی۔