ٹرمپ کے خلاف مظاہرے تیسری رات بھی جاری
امریکی صدارتی انتخانات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر کئی شہروں میں مظاہرین مسلسل تیسرے دن بھی سراپا احتجاج نظر آئے۔ ۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور اقتدار کے دوران امریکا میں انسانی حقوق کو زک پہنچ سکتی ہے۔
امریکی عوام سٹرکوں پر
الیکشن کے بعد مسلسل تیسری رات بھی کئی شہروں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ٹرمپ کے خلاف نعرے بازی کی اور اپنے تحفظات کو رجسٹر کرایا۔
پولیس کا گشت
ہفتے کی صبح پورٹ لينڈ میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ پولیس نے کہا ہے کہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ فائرنگ کس نے کی اور اس واقعے کے پیچھے کیا متحرکات کارفرما تھے۔
مظاہرین کو منشتر کرنے کی کوشش
نیویارک شہر میں بھی ایسے ہی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے شہر کی فیشن ایبل سٹریٹ ففتھ ایونیو پر واقع ٹرمپ کی رہائش گاہ ’ٹرمپ ٹارو‘ کے باہر بھی احتجاج کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن پورٹ لینڈ میں مظاہرین اور پولیس کے مابین رات بھر آنکھ مچولی جاری رہی۔
’ٹرمپ میرا صدر نہیں‘
میامی میں بھی ہزاروں لوگ ایسے ہی مظاہرے میں شریک ہوئے اور چند سو افراد ایک بڑی شاہراہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ان مظاہرین نے اس شاہراہ کی دو طرفہ ٹریفک کو بند کر دیا۔
خواتین پیش پیش
میامی، اٹلانٹا، فلاڈلیفیا، نیو یارک، سان فرانسسکو، پورٹ لینڈ اور اوریگن میں مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے۔ ان مظاہرین میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل رہی۔
’ٹرمپ کا سخت بیانیہ‘
ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ نامزد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ مہم کے دوران مہاجرین، مسلمانوں اور خواتین کے خلاف ایک سخت بیانیہ استعمال کیا گیا تھا، جو باعث تشویش ہے۔
پورٹ لینڈ میں تشدد
پورٹ لینڈ میں ہونے والے مظاہروں کے کے دوران پرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے۔ ہفتے کی رات بھی وہاں مظاہریں کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ کچھ مشتعل مظاہرین نے توڑ پھوڑ بھی کی۔
’ٹرمپ سے خوف‘
ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور اقتدار کے دوران امریکا میں انسانی حقوق کو زک پہنچ سکتی ہے۔
کئی مظاہرین گرفتار
جمعے کی رات لاس اینجلس میں پولیس نے دو سو کے قریب مظاہرین کو گرفتار کیا تھا۔ شکاگو شہر میں ہفتہ بارہ نومبر کو کئی تنظیموں کی جانب سے ٹرمپ مخالف مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
طلبہ بھی مظاہروں میں شریک
کئی امریکی شہروں کے تعلیمی اداروں کے اندر بھی طلبہ نے اینٹی ٹرمپ احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ٹینیسی کی وانڈربِلٹ یونیورسٹی کے طلبہ نے ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکا کی سلامتی کے لیے دعائیہ شبینہ عبادت کا اہتمام کیا۔
چھوٹے شہروں میں بھی مظاہرے
کئی دوسرے شہروں میں درمیانے درجے کے مظاہرے بھی ہوئے۔ ان میں ڈیٹرائٹ، مینی ایپلس، کنساس سٹی، میسوری، اولمپیا، واشنگٹن ڈی سی اور آئیوا خاص طور پر نمایاں ہیں۔ ان شہروں میں پانچ سو کے لگ بھگ مظاہرین ’نو ٹرمپ‘ والے بڑے بڑے بینر اٹھائے ہوئے تھے۔
ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام
ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور اقتدار کے دوران امریکا میں انسانی حقوق کو زک پہنچ سکتی ہے۔
ٹرمپ کا ردعمل
ان مظاہروں کے خلاف نامزد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابتداء میں کہا تھا کہ یہ میڈیا کا شاخسانہ ہے لیکن اب انہوں نے اس حوالے سے مؤقف تبدیل کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا ہے کہ وہ امریکا کے لیے ایسے جذبات رکھنے والے مظاہرین کی قدر کرتے ہیں۔
سکیورٹی ہائی الرٹ
پورٹ لینڈ میں مظاہرین نے ٹریفک روکنے کے علاوہ پولیس پر خالی بوتلیں اور پتھر بھی پھینکے۔ ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ پولیس نے مشتعل مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے دھماکے اور روشنی والے گرینیڈز بھی پھینکے۔
اوریگن میں افراتفری
اوریگن میں بھی ہفتے کی رات مظاہین کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کھل کر کریں گے۔