ٹوائلٹس نہیں ہیں، دیہی خواتین کہاں جائیں
28 نومبر 2018پاکستانی صوبے پنجاب کے گاؤں امیر والا کی رہائشی ساٹھ سالہ عائشہ صدیقہ عرصہء دراز سے ٹوائلٹ کی سہولت فراہم کیے جانے کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔عائشہ کا کہنا ہے، ’’میں انہیں کہتی ہوں یہ جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں لیکن میں رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ ہی جاؤں گی۔‘‘ عائشہ کی 35 سالہ بہو طاہرہ بی بی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ کئی گھنٹے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اندھیرا ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔ یہ سانپوں، کتوں اور بعض اوقات ہراساں کرنے والے مردوں سے بچ بچا کر کھیتوں میں رفع حاجت کے لیے جاتی ہیں۔
طاہرہ بی بی نے بتایا، ’’میں پانی بھی کم پیتی ہوں اور کھانا بھی کم کھاتی ہوں تا کہ مجھے باتھ روم نہ جانا پڑے۔‘‘ لیکن گزشتہ ایک ماہ سے طاہرہ کو یہ صبر نہیں کرنا پڑ رہا۔ اس کے گھر کے باہر ایک لیٹرین تعمیر کروا دی گئی ہے۔ اس ٹوائلٹ کو پاکستانی غیر سرکاری تنظیم لودھراں پائلٹ پراجیکٹ کی جانب سے بنوایا گیا ہے۔ یہ تنظیم صفائی ستھرائی اور غسل خانوں کی سہولت میسر کرنے پر کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے پروگرام افسر الطاف حسین نے اے ایف پی کو بتایا،’’مرد یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے گھروں کی عورتوں کو رفع حاجت کے لیے باہر جانا پڑتا ہے۔ یہ سگریٹ، ٹی وی اور دیگر چیزوں پر پیسہ خرچ کر لیتے ہیں لیکن لیٹرین نہیں بنواتے۔‘‘
اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسیف کے مطابق پاکستان میں قریب بائیس ملین افراد رفع حاجت کے لیے گھر سے باہر جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں صرف 48 فیصد آبادی کو ٹوائلٹس کی سہولت میسر ہے۔ یہ صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔ پاکستان میں ہر سال 53 ہزار بچے اسہال کی بیماری سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ طاہرہ بی بی نے بھی بتایا کہ اس کے چار بچوں میں سے ایک پیٹ کے مسائل کے باعث ہلاک ہو گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق لیٹرینوں کی کمی کے باعث پاکستانی معشیت کو ہر سال 2.5 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے 2023ء تک ملک بھر میں ٹوائلٹس کی کمی کو دور کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ خان کی حکومت نے ’کلین گرین پاکستان‘ نامی ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس کا مقصد صفائی ستھرائی کو بہتر بنانا اور دیہی علاقوں میں ٹوائلٹس کی سہولت میسر کرنا ہے۔ لودھراں پائلٹ پراجیکٹ جیسی تنظیمیں جو کہ اس مہم کا حصہ نہیں ہیں ‘کلین گرین پاکستان‘ مہم کے لیے آسانی پیدا کر رہی ہیں۔ اس تنظیم کی کوششوں کے باعث اب امیر والا کے 60 میں سے 15 گھروں میں لیٹرین بنائے جا چکے ہیں۔ پڑوسی گاؤں میں اسی تنظیم نے 60 میں سے 35 گھروں میں ٹوائلٹ بنوائے ہیں۔
45 سالہ محمد ناصر اپنی تمام عمر ہی کھیت میں رفع حاجت کے لیے جاتے ر ہے ہیں لیکن اب اپنی بیوی کی بگڑتی صحت کے بعد اس نے ٹوائلٹ تعمیر کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس کام پر اس کے پندرہ ہزار روپے صرف ہوئے لیکن اسے کوئی افسوس نہیں۔ اس کا کہنا ہے، مجھے ‘ٹوائلٹ بنوانے پر فخر ہے۔‘‘