امريکا ميں ٹِک ٹاک اور وی چيٹ پر پابندی
19 ستمبر 2020چينی ویڈیو شيئرنگ ایپ ٹِک ٹاک پر پابندی امريکا کی قومی سلامتی کے حوالے سے خدشات کے تناظر میں لگائی گئی ہے۔ اس پابندی کے بعد ٹِک ٹاک کو امريکا ميں ڈاؤن لوڈ نہیں کیا جا سکے گا۔ وہ صارفين، جن کے اسمارٹ فونز ميں يہ ايپ پہلے ہی سے موجود ہے، نومبر تک اس ايپ کو استعمال کر سکيں گے مگر اسے اپ ڈيٹ کرنا ممکن نہيں ہو گا۔ امریکی وزارت کامرس کے مطابق اتوار سے ٹک ٹاک تک رسائی بھی محدود کر دی جائے گی۔ ساتھ ہی چین کی ایک اور ایپ 'وی چیٹ‘ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ ایپ پیغامات رسانی، رقوم کی ادائیگی اور شاپنگ ميں مدد فراہم کرتی ہیں۔
ماہرين کے مطابق ان تازہ اقدامات سے دنیا کی ان دو بڑی اقتصادی قوتوں کے درمیان ٹیکنالوجی اور اقتصادی معاملات پر پہلے سے پائی جانے والی کشیدگی میں مزيد اضافے کا قوی امکان ہے۔
واشنگٹن سے جاری ہونے والے حکم میں واضح کیا گیا ہے کہ بیس ستمبر سے 'ٹین سینٹ کمپنی‘ کی ملکیت 'وی چیٹ‘ ايپ امریکا میں اپنی فعالیت سے پوری طرح محروم ہو جائے گی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ٹِک ٹاک کے صارفین بھی اتوار سے نئی اپ ڈیٹس اور دوسری تبدیلیوں کو ڈاؤن لوڈ نہیں کر سکیں گے البتہ صارفين بارہ نومبر تک ايپ استعمال کر سکيں گے۔ يہ امر اہم ہے کہ ٹِک ٹاک کو امریکی صدارتی انتخابات کا اپ ڈیٹ ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انتہائی مقبول ایپ ٹِک ٹاک کی ملکیت و نگرانی بائٹ ڈانس کے پاس ہے، جو ایک چینی کمپنی ہے۔ اس ایپ پر امریکی سکیورٹی حلقوں کو گہرے تحفظات لاحق ہیں۔ امریکی حکومت چاہتی ہے کہ بائٹ ڈانس کے ساتھ ملکیت میں کوئی امریکی کمپنی بھی شامل ہو جائے تاکہ ڈیٹا کے تحفظ کے يقين دہانی ہو سکے۔
دريں اثناء چینی وزارتِ کامرس نے امريکا کی جانب سے ان تازہ پابندیوں کی مذمت کی ہے۔ وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ پابندیاں امریکی رویے کا تسلسل ہيں اور اگر امریکا اپنی راہ کا انتخاب کرتا ہے تو چین بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب اور جائز اقدامات اٹھانے کا مجاز ہے۔ ٹِک ٹاک کی منتظم کمپنی نے بھی امریکی پابندیوں کو نامناسب قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ ان پابندیوں کے خلاف مزاحمتی عمل عدالت میں جاری رکھے گی۔ کمپنی کے بیان کے مطابق یہ ایپ کسی فردِ واحد کی ذاتی تفریح کا ذریعہ ہے اور پابندی کا واحد مقصد ذاتی تفریح تک رسائی کو محدود کرنا ہے۔
ٹک ٹاک کے حوالے سے سکیورٹی خدشات غیر واضح ہیں اور حکومتی پابندی نے آزادئ اظہار پر تشویش پیدا کر دی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے نائٹ فرسٹ امینڈمینٹ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر جمیل جعفر کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ایک غلطی ہے اور اس نے امریکی دستور کی پہلی ترمیم کو بھی محدود کر دیا ہے۔
اُدھر امریکا کے وزیرِ تجارت ولبر روس کا کہنا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے اس کا اظہار کر رکھا ہے کہ وہ ان ایپس کے ذریعے امریکی اقتصادیات، خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے لیے خطرات کھڑے کرے گی۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ چینی ایپس جاسوسی میں ملوث ہو سکتی ہیں۔
ع ح، ع س (اے ایف پی)